ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
معرکہ آرائی کے بجائے منافقانہ پالیسیوں کے ذریعہ معاملات کو جتنا بھی طول دیا جاسکتا ہو دیا جائے، مسلمانوں کی بیداری کے خطرے نے ان کو سہما رکھا ہے عالمی سطح پر حالیہ ایام میں اُن کے عالمی لیڈروں کے میٹھے بول اندر کے چھپے خوف کو پوری طرح عیاں کر رہے ہیں۔ اس پر اپنی طرف سے مزید کچھ لکھنے کے بجائے ہم چاہیں گے کہ مؤرخہ ٢٠فروری کے روزنامہ نوائے وقت کے کالم نگار جناب اسد اللہ صاحب غالب کی ایک جاندار تحریر جو '' دہشت گردی،چانسلر مرکل کے خیالات اور ہمارا روّیہ '' کے عنوان سے شائع ہوئی ہے قارئین کی خدمت میں پیش کریں جس میں عالمِ اسلام اور بالخصوص پاکستان کی مقتدر قوتوں کو بے باکانہ اور جرأت مندانہ آئینہ نمائی کرتے ہوئے ان کی غیرتِ ایمانی کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ '' جرمن چانسلر مرکل نے بڑے شرح صدر کے ساتھ کہا ہے کہ '' اسلام اور مسلمانوں کا کوئی تعلق دہشت گردی سے نہیں '' جرمن لیڈر نے جو کچھ کہا ہے وہ اُس بیانیے سے قطعی مختلف ہے جو مغربی دارالحکومتوں سے سننے میں آ رہا ہے،نائن الیون کے حوادث کے فوری بعد صدر بش نے کہا تھا کہ '' ایک نئی صلیبی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے '' موجودہ پوپ کسی وقت مسلمانوں کو دہشت گردی کے لیے مطعون کرتے ہیں مگر ایک حالیہ بیان میں انہوں نے دہشت گردی کومذہب سے جوڑنے کی مخالفت کی ہے، کینیڈا میں تو نقشہ ہی مختلف ہے، صدر ٹروڈو مسجدوں میںجاتا ہے اور مذہبی ہم آہنگی کی علامت بنا نظرا تا ہے۔ جرمن چانسلر بھی مختلف اوقات میں مختلف باتیں کرتی رہی ہیں، نئے سال کے پیغام میںانہوں نے کہا تھا کہ '' اسلامی دہشت گردی کے خلاف متحدہ کوششیںہو نی چاہئیں ''