ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
قسمِ اوّل (قسری) والی حرکت پرقیاس کرتے ہیں تو استحالہ تو درکنار تعجب اور استبعاد بھی رفو چکر ہو جاتا ہے علم مساحت اور ریاضی میں تسلیم کیا گیاہے کہ قطر کرہ ٔ مساحت میں محیط کی ایک تہائی سے کچھ کم ہوتا ہے اور چونکہ جنابِ رسول اللہ ۖ کی حرکت قطر پر تھی محیط پر نہ تھی اور چونکہ ابتدائی حرکت مر کز عالم کے بُعد سے تھی اور چونکہ زمین کی سطح ظاہری پر سے ابتدا واقع ہوئی یعنی مرکز عالَم سے حسب ِتصریحات سائنس قدیم تین ہزار آٹھ سو ساڑھے سترہ (٥.٧ ٣٨١) میل اُوپر سے واقع ہوئی اس لیے جنابِ رسول اللہ ۖ کی حرکت معراجی کی مسافت چھٹے حصہ سے بھی کم ہوئی، جنابِ رسول اللہ ۖ کا جسم مبارک اگر آفتاب کی مسافت جسم کے برابر ہوتا تو حسب ِقانون حرکت ِشمس یہ جملہ مسافت فقط تین گھنٹہ میں قطع ہو سکتی تھی جس میں آمدو رفت میں چھ گھنٹے خرچ ہوتے مگر جِرم کی بڑائی کا مانع حرکت ہونا اور چھوٹائی کا مؤید حرکت ہونا بدیہی اور مسلم مسئلہ ہے اس لیے جب اس نسبت کو جوکہ جسم نبوی کو جِرم آفتاب کے ساتھ ہے خیال کرتے ہوئے دونوں کی حرکت اور سرعت و بطو پر تقسیم کریں تو شاید دونوں حرکتیں (عروجی و نزولی) ایک سیکنڈ کی بھی متحمل نہ ہوسکیں گی، اگرچہ جناب رسول اللہ ۖ کی مسافت حرکت فقط محیط فلک شمس تک محصور نہ تھی مگر فلک الافلاک جوکہ اپنی طبعی حرکت سے تمام ماتحت افلاک کو حرکت دے رہا ہے اور چوبیس گھنٹہ میں اپنا دورہ پورا کرتا ہے اُس کی حرکت محیطی اور قطری کا بھی وہی حال ہوگا جو فلک اور شمس کا ظاہر ہوا۔ (٤) سائنس قدیم اِس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ جسم کبیر میں موانع حرکت اور عوائق بہت زیادہ ہوتے ہیں اور صغیر میں کم اور یہی وجہ ہے کہ حرکت دینے والے کوبڑے جسم کو حرکت دینا اور تیز لے جانا سخت دُشوار ہوتا ہے جو کہ جسم صغیر میں نہیں پایا جاتا۔اور یہ بھی مسلمات سائنس قدیم میں ہے کہ دنیا میں سب سے بڑے پہاڑ (جس کی بلندی تقریبًا سات میل یعنی ڈھائی فرسخ ہے) کی نسبت زمین کے قطر سے ایسی ہے جیسی کہ جو کے چوڑائی کے ساتویں حصہ کی نسبت ایسے کرہ سے جس کا قطر ایک ذراع ہو اور چونکہ ایک ذراع چوبیس اُنگلیوں کا ہوتا ہے اور ایک اُنگلی چھ جوکی شمار کی گئی ہے اس لیے ایک ذراع ایک سو چوالیس جوکا ہوا جس کو اگر سات میں ضرب دیں تو وہ نسبت حاصل ہو سکے گی جوکہ جو کی چوڑائی