ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
٢) بطلیموسی فلسفہ کے دلدادوں اور یونانی سائنس کے فریفتوں نے اس صغیر جسمِ انسانی کی اس قدر سریع حرکت کو مستحیل اور مستبعد خیال کیا مگر خود اپنے مسلمات سے غافل رہے، جِرم ١ آفتاب جوکہ بقول صاحب ِتذکرہ زمین سے ٣٧٥. ١٦٦ درجہ اور بقول طوسی و کاشی ١ ٣٢٦ درجہ بڑا ہے (یعنی اِس قدر ضخامت اور بڑائی رکھتا ہے کہ زمین جیسے ایک سو چھیاسٹھ سے زائد اجسام اس سے بن سکتے ہیں اور دوسرے فلاسفہ کے نزدیک زمین جیسے تین سو چھبیس اجسام اُس میں سما سکتے ہیں) وہ اپنی وضعی (اپنی جگہ پر چکر کھانے والی) حرکت میں ایک سیکنڈ سے کم میں اپنے محیط کا آدھا حصہ طے کر لیتا ہے یعنی اس کے وہ اجزائِ محیط جوکہ قطر کے ایک کنارہ پر تھے ایک سیکنڈ سے کم میں دوسرے کنارہ پر آجاتے ہیں غرضیکہ آفتاب کے محیطی اجزاء خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے بقول صاحب ِتذکرہ ایک سیکنڈ سے کم میں بیس لاکھ پچھتر ہزار میل سے زیادہ مسافت طے کرتے ہیں اور بقول طوسی و کاشی چالیس لاکھ پچھتر ہزار میل ہر جزو طے کرتا ہے (کیونکہ زمین کا محیط پچیس ہزار میل قرار دیا گیا ہے ،آفتاب کی ضخامت مذکورة الصدر کو ہر دو اقوال پر لحاظ کرتے ہوئے نصف محیط کو حرکت وضعی مذکور کا موضع حرکت قرار دیا جائے گا تو یہی مقدار نکلے گی )ایک سیکنڈ سے کم میں اس قدر مسافت کا قطع کرنا ایک ایسی سریع اور تیز حرکت ہے جس کی وجہ سے معراجِ جسمانی کی حرکت نہایت واضح طور پر قرین ِعقل معلوم ہوتی ہے اور ان مسلمات سائنس قدیم کاتسلیم کرنے والا کسی طرح بھی وقوعِ معراج میں شبہ نہیں کر سکتا پھر جبکہ جسمِ انسانی جیسے چھوٹے جِرم کی حرکت خیال کی جائے تو اس سے ہزاروں گنا تیز حرکت کا ثبوت ملتا ہے جس پر ہم آئندہ روشنی ڈالیں گے۔ (٣) چونکہ سائنس قدیم آفتاب کے لیے علاوہ حرکت وضعی حرکت اینی قسری غیر قسری دونوں قسم کی تسلیم کرتی ہے اور قسم اوّل یعنی قسری کا دورہ چوبیس گھنٹہ میں اور قسم دوم یعنی غیر قسری (طبعی) کا دورہ سال بھر میں تمام ہوتا ہے اس لیے جنابِ رسول اللہ ۖ کی معراجی حرکت کو آفتاب کی ١ نُصَیر الدین محمد الطوسی فلکیات کا ماہر سائنسدان(١٢٠١ئ۔١٢٧٤ئ)پیدائش : طوسی ، وفات : بغداد۔ جمشید الایرانی الکاشی فلکیات کا ماہر سائنسدان(وفات : ١٤٣٤ء ) ٢ جسم