ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
کے ساتویں حصہ کو ایسے کرہ سے ہوتی ہے جس کا قطر ایک ذراع ہو یعنی دنیا کے سب سے اُونچے پہاڑ کو زمین کے قطر کے ساتھ وہ نسبت ہے جوکہ ایک کو ایک ہزار آٹھ کے ساتھ ہے۔ اس کے بعد جسمِ انسانی کی دنیا کے سب سے اُونچے پہاڑ کی نسبت کو ملاحظہ فرمائیے کہ اِس ڈھائی گز کے اُونچے جسم کو ساتھ میل کے ساتھ کیا نسبت ہے اور پھر غور کیجئے کہ اگروہ قوت جوکہ آفتاب کوچوبیس گھنٹہ میں پورے محیط کو قطع کرادیتی ہے اگر آفتاب کو بقیہ نصف قطر پر (بعد منہائی سطح زمین اَز مرکز عالم) حرکت دے گی تو تین گھنٹہ سے کم میں مسافت ِمذکورہ قطع ہو جائے گی ۔ اور اگر جسم ارضی کو اِس مسافت پرحرکت دے گی اور بقول صاحب ِتذکرہ ہم زمین کو فقط ١٦٦ درجہ ہی چھوٹا مانیں تو تقریبًا ایک منٹ چھ سیکنڈ میں پوری مسافت ِمذکورہ قطع کرادے گی۔ اور اگر سب سے اُونچے پہاڑ جس کی بلندی ساتھ میل تھی اور جس کی نسبت زمین کے ساتھ وہ تھی جو کہ ایک کو ایک ہزار آٹھ سے ہے تو تقریبًا ایک منٹ کے ایک ہزار آٹھویں حصہ میں قطع کرادے گی۔ اور اگر جسمِ انسانی کوجس کی نسبت ِجسمانی سب سے بلند پہاڑ کے ساتھ نہایت ہی ظاہر اور باہِرہے ایک سیکنڈ کے کتنے ہزار حصہ میں قطع کرا دے گی۔ افسوس ہے کہ بطلیموسی سائنس اور یونانی ہئیتہ و ریاضی پر ایمان لانے والوں نے اس حالت پر ذرا بھی غور نہ کیا اور نہایت ظاہر و باہِر اور واقع ہونے والی شے کو محال سمجھ کر انکار کر بیٹھے، اپنے گھڑے ہوئے اصولوں پر توجہ نہ کی اور صحیح و مستند احادیث اور ظاہر وبین آیات میں طرح طرح کی تاویلیں گھڑنے لگے اور مذہب کے مسلمات کو سلام کر بیٹھے۔ ان لوگوں کویہ شبہ بھی دامن گیر ہواکہ معراج کی وہ کیفیت جو کہ آیتوں اور حدیثوں میں ذکر کی گئی ہے جب ہی قابلِ تسلیم ہو سکتی ہیں کہ آسمان میں خرق والتیام کو مانا جا سکے اس میں دروازہ وغیرہ مسلم ہو مگر فلسفہ قدیمہ اس کا منکر ہے ،یہ شبہ ایک ایسا واہی ہے کہ سوائے اُس دہری اور ملحد کے جو کہ کسی آسمانی مذہب کو نہیں مانتا کوئی شخص تسلیم نہیں کرسکتا ،فرشتوں کا عروج و نزول وحی کااُترنا بغیر آسمان کے