ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
(١) عرب کے باشندے کہانت کو تسلیم کرتے تھے جس کا حصول جنات سے ہوتا تھا، جنات کی تیز اور تند حرکت کے ماننے میں ان کو پس و پیش بھی نہ ہوتی تھی اسی طرح ملائکہ اور فرشتوں کی تیز اور قوی حرکت کااُن کو اقرار تھا اور یہی وجہ تھی کہ باوجود جنابِ رسول اللہ ۖ کی ہر قسم کی مخالفت اور تکذیب کے اُنہوں نے کبھی اِس مقدمہ کاانکار نہیں کیا کہ بہت جلد بارگاہِ خدا وندی سے فرشتہ وحی لے آتا ہے یہ کبھی نہیں کہا گیا کہ کسی فرشتہ میں یہ قوت نہیں کہ چشم زدن میں آسمانوں کے اُوپر سے کوئی چیز لاسکے اور نہ فرشتوں کے وجود کااُن کو انکار تھا اس لیے اُن کو سوچنا چاہیے تھا کہ جبکہ جنات فرشتوں وغیرہ میںاس قدر قوت ہے کہ آناً فانًامیں کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں تو اگر روحِ نبوی میں اس قدر قوت ہو کہ آناً فاناً میںاِس جسم کولے کر آسمانوں اور اُن کے اُوپر تک پہنچ جائے یا جسم نبوی نے روحِ قویہ کی مجاورت کی وجہ سے روحانی خفت ایسی پیدا کر لی ہو کہ آناً فاناً میں روح کے ساتھ اُڑتی چلی جائے یا کسی قوی فرشتہ نے آنحضرت ۖ کی روحانی اور جسمانی برداشت کی اور آپ کو اپنی قوت سے ایک منٹ میں کہیں سے کہیں اُٹھا کر پہنچادیا تو کیا استبعاد ہے اور کیوں یہ امر محال شمار کیا جائے ؟ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اِس کی خبر دی گئی تو فرمانے لگے اگر جنابِ رسول اللہ ۖ نے ایسا ارشاد فرمایا ہے تو ضرور وہ سچے ہیں ،لوگوں نے جب اس پر تعجب کا اظہار کیا تو فرمانے لگے کہ ہم تو روزانہ اِس سے بھی زیادہ تر تیز اور زیادہ تردُور کی خبریں سنتے رہتے ہیں اور ان کی تصدیق میں متامل نہیں ہوتے یعنی عرش بریں کے اُوپر سے صبح و شام وحی دم کی دم میں آتی ہے اور جنابِ رسول اللہ ۖ کو ہم سچا جان کر اطاعت و فرمانبرداری کا دم بھرتے ہیں پھر اس معراج میں کون سا اچنبھا ہے ؟ اس جواب نے استہزا کرنے والوں اور معترضین کے منہ میں پتھر بھر دیے اور اپنا سا منہ لے کر واپس ہوگئے ،جن لوگوں کے حصہ میں سعادت ابدی لکھی ہوئی تھی اور ان کو عقل و تدبر کا روشن مادّہ ملا تھا وہ سمجھ بوجھ کرایمان اور اسلام پر قائم رہے اور جن کی سرشت گمراہی اور کم عقلی کی تھی وہ محال سمجھ کر باوجود وضوح دلائل وظہورِ معجزاتِ متعددہ اِرتداد اور کفر کی تاریکیوں میں ہمیشہ کے لیے گر کر برباد ہوگئے۔