ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
|
حکومت میں شامل ہوکر عمران خان کے دست و بازو بنی ہوئی ہے اورجس نے ایم ایم اے دور میں پشاور میں خواتین کی تصاویر پر مبنی سائن بورڈتوڑ کر جہاد اکبر کا فریضہ انجام دیاتھا لیکن آج وہ اس قدر اسلام دشمنی پر خاموش ،کیا شریکِ محفل ہو کر وزراتوں کے مزے لوٹ رہی ہے اور کسی قسم کا احتجاج خلافِ مصلحت سمجھ بیٹھی ہے ۔ کیا جماعت اسلامی کا وہ دینی ،ایمانی غیرت اور حمیت اسلامی کا جذبہ قاضی حسین احمدمرحوم کے ساتھ دفن ہوچکاہے ؟ یااُس کے قائدین مصلحتوں کے نیچے ایسے دب گئے ہیں کہ اِس بے دینی کے خلاف آوازاُٹھانا اُن کوانتہا پسندی کا کوئی خطرناک گڑھانظر آنے لگا ہے۔ اب تو یہ بات بھی صاف ظاہر ہوگئی کہ جماعت اسلامی ایم ایم اے کو بحال کیوں نہیں کرنے دیتی اور یہودی ایجنٹ کے ساتھ کیوں چمٹی ہوئی ہے ؟ بہر حال تمام مذہبی جماعتوں سے حالات کا تقاضاہے کہ وہ دین ِاسلام، نظریہ پاکستان اورنصابِ تعلیم کی تباہی کے خلاف اس گہری سازش اور یہودی ایجنڈے کے خلاف کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کریں اور اس کے خلاف شدید احتجاج کرکے اس طوفان کو اِسی مقام پر روکیں ۔ عدلیہ کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ نصاب میں اسلام اور نظریہ پاکستان کے خلاف سازش کو قانون کے راستے روک کر اپنافرض منصبی اداکرے ۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف صاحب کاتواوّلین فریضہ ہے کہ وہ' ضربِ قلم 'کی ابتدا یہیں سے کرکے یہودی ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف پالیسی ساز دانشوروں اور صوبائی اربابِ اختیار کو اسلام اور نظریہ پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں سے روک کر ملک وملت پر رحم کریں۔