ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2017 |
اكستان |
دوسری طرف دارُالعلوم حقانیہ کو تیس کروڑ روپے دینے کا اعلان کرکے اُن کی ہمدردیاں خرید نے کوشش کی تاکہ اگرکوئی مذہبی جماعت اس یہودی ایجنڈے کے خلاف تحریک چلانے کی کوشش کرے تواُن کے توڑ کے لیے مذہبی طبقوں ہی میں ان کی مخالفت کرنے والے عناصرموجود ہوں، لیکن اب یہ صرف مذہبی جماعتوں کا اِیشو نہیں رہا بلکہ ہر مسلمان اور دردِ دل رکھنے والے پاکستانی کا اِیشوبن چکاہے کوئی بھی مذہب پسند شخص سیکولر نصاب تعلیم اپنی نسل کے لیے برداشت نہیں کرسکتا۔ مذکورہ بالا تحقیق جمعیة علمائِ اسلام کے کسی رہنما،کارکن یادیگرکسی سیاسی یامذہبی شخصیت کی نہیں ہے بلکہ یہ تحقیق ''پرائیویٹ ایجوکیشن نیٹ ورک '' (PEN) کے صوبائی صدر جناب سلیم خان صاحب کی ہے جنہوں نے اس پر بڑی تحقیق کر کے ایک کتابچہ کی صورت میں عنوان اور صفحہ نمبرکے ساتھ اِن تبدیلیوں کا تقابلی جائزہ پیش کرکے ہر غیرت مند مسلمان کودعوتِ فکر دی ہے اور اِس کے ساتھ اربابِ اختیار سے کئی دفعہ ملاقاتیں اور مذاکرات کرکے ان کی آنکھیں کھولنے کی ہرممکن کوشش کی ہے مگر بقول ان کے صوبائی وزیر تعلیم نے صاف صاف کہا کہ ہم مجبور ہیں۔ ان کی مجبوری اپنے آقائوں کی خوشنودی ہے جنہوں نے ان کو حکومت دلوائی ہے اور صوبہ خیبرپختونخوا کے مذہب پسند لوگوں کو اسلامی تہذیب سے برگشتہ کرنے کے لیے ان کو اس صوبے پر مسلط کیا ہے جو ان کی پشت پناہی کررہے ہیں اور جنہوں نے ان کو 56,988ملین روپے دیے ہیںاورمزید55,338ملین روپے دینے ہیں۔ موصوف نے جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق صاحب سے ملاقات کرکے ان کی توجہ بھی اس طرف مبذول کرائی ہے مگراِس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، صوبے پر یہودی ذہن سازوں کا تسلط تمام مذہبی جماعتوں اور اسلام پسند عوام کے لیے لمحہ فکریہ ہے ،خصوصاً جماعت اسلامی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے جو صوبائی