فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
رہ گئیں تو یہ بے ہوش ہوگیا۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے اس کو جنت اور دوزخ دکھادی اور جب اس کو ہوش آیا تو ہارمل چکا تھا، تمام بیگمات نے اس سے معافی مانگی کہ ہماری وجہ سے آپ کو تکلیف ہوئی لیکن اس نے اب ان کی خدمت سے معذوری ظاہر کی کہ یہ کام اب میرے بس کا نہیں کیوں کہ اس کے منہ کو اللہ کی محبت کا مزہ لگ چکا تھا اور دل میں اللہ کا وہ خوف حاصل ہوچکا تھا جو بندے کے اور گناہوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے گویا اس وقت بزبانِ حال وہ اس شعر کا مصداق تھا ؎ چسکا لگا ہے جام کا شغل ہے صبح وشام کا اب میں تمہارے کام کا ہم نفسو رہا نہیں توبہ ام بپذیر ایں بارِ دگر تا بہ بندم بہرِ توبہ صد کمر اے اللہ! آپ میری توبہ کو دوسری بار پھر قبول فرمالیجیے، یعنی شکستِ توبہ کا جو میں نے جرم کیا اس کو ایک بار پھر معاف فرمادیجیےتاکہ اس توبہ پر استقامت کے لیے میں خوب مضبوطی سے کمر باندھ لوں یعنی بہت مضبوط عزم کرلوں اور نہایت ہمت سے نفس کو پٹکنے کے لیے اور گناہ کے تقاضوں کے مقابلے کے لیے اور آپ کو خوش کرنے کی خاطر گناہ سے بچنے کا غم اٹھانے کے لیے ایک کمر نہیں سو کمر باندھ کر تیار رہوں ۔ یہ مبالغہ ہے اور محاورہ بھی ہے، جیسے کہتے ہیں کہ میں سو جا ن سے آپ پر فدا ہوں،حالاں کہ پاس تو ایک ہی جان ہے لیکن اس سے مراد مبالغہ ہے کہ اگر سو جان ہو تو فدا کردوں ۔ اسی طرح مولانا اللہ تعالیٰ کے حضور میں انتہائی خوشامد ولجاجت سے عرض کررہے ہیں کہ اے اللہ! اس بار پھر مجھے معاف کردیجیے میں سو کمر باندھ کر توبہ پر قائم رہوں گا اور دوبارہ شکستِ توبہ کا جرم نہیں کروں گا۔