فیضان محبت |
نیا میں |
|
حرف آغاز مرشدی ومولائی عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم بنگلہ دیش کے احباب خصوصی کی دعوت پر تقریباً گزشتہ پندرہ سال سے ایک یا ڈیڑھ ماہ کے لیے ہر سال بنگلہ دیش تشریف لے جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں جو عظیم الشان کام وہاں ہوا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں خصوصاً شعبہ تزکیہ نفس گویا دوبارہ زندہ ہوا، اطَالَ اللہُ بَقَاءَ وَادَامَ اللہُ عَلَیْنَا بَرَکَاتَہُ ۔ وہاں کے خواص وعوام جس والہانہ بلکہ دیوانہ وار انداز سے حضرت والا سے محبت کرتے ہیں اس کا اندازہ بغیر مشاہدہ کے ممکن نہیں ۔جن لوگوں نے دیکھا ہے وہی سمجھ سکتے ہیں کہ وہاں کے لوگوں کے جوش محبت ووار فتگی کا کیا عالم ہے اور دراصل یہ حضرت مرشدی کی محبت وشفقت کا اثر اور صدائے بازگشت ہے۔ حضرت والا خودسراپا محبت ہیں جس کی برکت سے بڑے بڑے علماء کی دستار فضیلت دستار محبت میں گم ہوگئی ؎ کار زلف تست مشک افشانی اما عاشقاں مصلحت راتمتے برآہوئے چیں بستہ اند زیر نظر وعظ فیضان محبت بنگلہ دیش کے شہر کشور گنج میں یکم دسمبر۱۹۹۳ء بعد نماز عشاء جامعہ امدادیہ کے احاطہ میں ہوا جہاں ایک بہت بڑا پنڈال لگایا گیا تھا تقریباً دس ہزار کا مجمع تھا جس میں عوام کے علاوہ علماء کرام کی بھی کثیر تعداد موجودتھی۔ دس بجے شب کے قریب حضرت والا کا بیان شروع ہوا جس میں حق تعالیٰ کی محبت اشد اور اس کے حاصل کرنے کے طریقے اور اس محبت کے حصول میں جو موانع ہیں مثلاً حقوق الوالدین میں کوتاہی ،بیویوں کے حقوق میں کوتاہی، مخلوق کی ایذارسانی، بہنوں کو ورثہ نہ دینے کا ظلم ،بدنظری وجملہ معاصی ومنکرات کا ذکر نہایت جوش کے ساتھ بیان فرمایا کہ ان نافرمانیوں اور مظالم کے ساتھ حق تعالیٰ کی محبت کا خواب دیکھنا جنون ودیوانگی ہے۔ اور اس کے ساتھ دین پر استقامت کی ترغیب کے لیے بزرگان دین کے تقویٰ فنائیت وصبر واولوالعزمی کے واقعات نہایت رقت قلب اور درد کے ساتھ بیان فرمائے۔وعظ کیا تھا،جلال وجمال کا حسین امتزاج تھا کبھی شان جلال سے چہرہ تمتما جاتا تھا اور آواز بلند