فیضان محبت |
نیا میں |
|
اور راستہ وہ ہے جو اللہ تک پہنچ رہا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اس راستہ پر چل کر ہم صرف پیٹ تک، تکمیل بطن اور تنخواہوں تک پہنچیں، دین کو تن پروری کا ذریعہ بنالیں۔ وہ راستہ، وہ علم، حقیقت میں علم نہیں جو اللہ تک نہ پہنچادے ؎ اَیُّہَا الْقَوْمُ الَّذِیْ فِی الْمَدْرَسَۃْ کُلُّ مَاحَصَّلْتُمُوْہُ وَسْوَسَۃْ اے مدرسہ والی قوم! اگر تم نے اللہ کو حاصل نہیں کیا، صاحبِ نسبت نہیں ہوئے، تزکیۂ نفس نہیں کرایا، گناہوں کو نہیں چھوڑا تو تمہارا سارا علم وسوسہ ہے اور کچھ نہیں۔ ابھی میرے بیان کا ترجمہ بنگلہ زبان میں ہوگا، اگرچہ میرے لیے اس میں مشکلات ہیں کیوں کہ بارش تسلسل سے ہوتی ہے، جب بادل میں پانی کا وزن ہوتا ہے تو بغیر برسے ہوئے اس کو بہت مشکلات پڑتی ہیں۔ اسی طرح مقرر کے سینہ پر علوم کا وزن ہوتا ہے، ترجمہ کے لیے رُکنے میں بہت مشکل ہوتی ہے لیکن حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ گاؤں گاؤں جاکر اللہ کے دین کو پھیلائیں۔ محبت زبان کی محتاج نہیں ہے ؎ رحمت کا ابر بن کے جہاں بھر پہ چھائیے عالم یہ جل رہا ہے برس کر بجھائیے رحمت کا ابر بن کے قریہ قریہ بستی بستی پھر کر دین پھیلانا علماء کی ذمہ داری ہے ؎ رحمت کا ابر بن کے جہاں بھر پہ چھائیے عالم یہ جل رہا ہے برس کر بجھائیے اتنا بڑا عالم کہ عربوں میں آج جس کا غلغلہ ہے، افسوس کہ ان کا بھی انتقال ہوگیا یعنی مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ مصنف عبدالرزاق کا حاشیہ اور تخریج انہوں نے عربی میں لکھی ہے، اُن کے دارالعلوم میں حضرت نے یہ شعر پڑھا تھا۔ دارالعلوم دل کے پگھلنے کا نام ہے ذکر کا حاصل غرق فی النّور ہونا ہے اگر علم کے باوجود دل خدا کے لیے بے چین نہ رہے، اللہ تعالیٰ کی پیاس اور تڑپ