فیضان محبت |
نیا میں |
|
کردو۔ اس جاہل کسان نے کہا کہ حضرت! آپ میرے باپ سے بھی زیادہ بڑے ہیں، عزت دار ہیں، عالم دین ہیں، آپ کو حق ہے مجھے ڈانٹنے کا۔ فرمایا ہر گز نہیں! قیامت کے دن معلوم نہیں عبدالغنی کا کیا حال ہوگا؟ معاف کردو تب یہاں سے جاؤں گا۔ اس نے کہا اچھا! میں نے معاف کردیا اور یہ اس لیے کہہ دیا کہ آپ کا دل خوش ہوجائے ورنہ آپ کا مجھ پر حق ہے۔ اس کے بعد حضرت لوٹ آئے۔ حضرت نے مجھ سے فرمایا اسی رات کو انعام کیا ملا مخلوقِ خدا پر رحم کرنے کا اور ظلم پر معافی مانگنے کا کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، دو کشتیاں ہیں،ایک کشتی پر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور آپ کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف فرما ہیں، دوسری کشتی کچھ فاصلہ پر ہے،اس پر شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اکیلے بیٹھے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی! عبدالغنی کی کشتی کو میری کشتی سے جوڑ دو۔ حضرت شاعر نہیں تھے، مگر اس مضمون کو شعر میں پیش کردیا کہ ؎ قلبِ مضطر کی تسلی کے لیے حکم ہوتا ہے ملا دو ناؤ کو دیکھا آپ نے، آج ہے کوئی شخص جس سے زیادتی ہوگئی ہو وہ جاکر پیر پکڑ کر معافی مانگے کہ مجھ سے خطا ہوگئی، مجھے معاف کردو۔ سبحان اللہ! کیا شان تھی ہمارے بزرگوں کی، یہ ہے اصلی بزرگی۔ یہ نہیں کہ دو نفل پڑھ کر اکڑ رہے ہیں۔ مقبولیت کی علامت یہ ہے کہ عبادت کرکے اور زیادہ فنائیت پیدا ہوجائے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی شانِ تقویٰ حکیم الامت کی کیا شان تھی کہ مرنے سے پہلے اعلان کردیا کہ اگر میں نے کسی کو ستایا ہو، کسی کو بُرا کہا ہو تو ؎ وہ آج آن کر مجھ سے لے انتقام قیامت کے دن پر نہ رکھے یہ کام