فیضان محبت |
نیا میں |
|
صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں گے کہ اے اللہ کے نبی! میری شفاعت کیجئے، میری سفارش کیجئے، مجھ کو بخشوادیجئے تو اللہ کے نبی نے اگر یہ سوال کرلیا کہ میری شکل میں تجھ کو اے ظالم کیا خرابی نظر آتی تھی کہ تو نے میری جیسی شکل نہیں بنائی، عیسائیوں، یہودیوں کی سی شکل بنائی، سکھوں سے بھی تو نے سبق نہیں لیا کہ اپنے گرونانک کی محبت میں انہوں نے ڈاڑھیاں رکھیں حالانکہ وہ باطل پر تھے، کافر تھے، نجات نہیں پائیں گے۔ دوستو! شرعی ڈاڑھی رکھنے میں حسن و جمال بھی ہے، آپ نے دنیا میں کسی شیر کو دیکھا جس کے ڈاڑھی نہ ہو، چڑیا خانوں میں جاکر دیکھئے، شیرنی کے ڈاڑھی نہیں ہوگی، آپ لوگ کیا بننا چاہتے ہیں؟ شیر بننا چاہتے ہیں یا شیر کی بی بی؟ ماشاء اللہ! ہر طرف سے آواز آرہی ہے کہ شیر بننا چاہتے ہیں، مؤمن اللہ کے شیر ہیں یعنی اللہ کی فرماں برداری میں وہ کسی کی پروا نہیں کرتے، نہ معاشرہ کی، نہ زمانہ کی، نہ شیطان کی، نہ اپنے نفس کی۔ بہنوں کو ورثہ نہ دینا بدترین ظلم ہے یہ نہیں کہ کسی کا مال مارلیا، کسی کا کھیت دبالیا، کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ یہ مال و دولت چند دن کی ہے جس کے لیے اللہ کو ناراض کرتے ہیں۔ تہجد کبھی قضا نہیں کرتے مگر جب بابا کا انتقال ہوگیا تو اپنی بہنوں کا ورثہ اور بہنوں کی ساری زمین پر قبضہ کرلیا اور بہن سے کیا کہتے ہیں سال میں ایک دفعہ آنا تمہارے بچوں کے کپڑے بنادیں گے اور تمہارا بھی ایک جوڑا بنادیں گے، آکر ایک مہینہ خوب کھالینا اور باپ دادا کی چوکھٹ پر اپنا دل خوش کرلینا، مگر خبردار زمین لینے کا نام نہ لینا، نہیں تو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں پینے دوں گا۔ آہ! یہ دینداری ہے؟ یہ تو شقاوت قلبی اور بدترین ظلم ہے۔ اس لیے عرض کرتا ہوں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی محبت کی کمی سے ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں آجائے تو عمل آسان ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت تین طریقہ سے آتی ہے۔ نمبر ایک اللہ تعالیٰ کے احسانات کو سوچئے کہ جس نے ہمارے لیے چاند، سورج، زمین، آسمان بنائے، اسلام و ایمان عطا فرمایا، بال بچے دیئے، روزی دی اور کیا کیا نعمتیں عطا فرمائیں۔نمبر دو اللہ کا ذکر کیجئے کسی اللہ والے سےپوچھ کر۔ذکر میں خاصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کردیتا ہے، خاص کر جو ذاکرین خدا کے عاشقوں کی نقل بناتے ہیں، دل