فیضان محبت |
نیا میں |
|
کے ہر حرف پر دس نیکی اسی طرح سے ملتی ہے جیسے کہ قرآن پاک کے تمام حروف پر۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ شاہ عبدالقادر صاحبِ تفسیر موضح القرآن کے مصنف دہلی کی مسجد فتح پوری میں دیر تک ذکر میں مشغول تھے۔ جیسے ہی نکلے ایک کتّے پر نظر پڑگئی، وہ کتّا دہلی کے سارے کتّوں کا شیخ بن گیا، جہاں جاتا تھا سارے کتّے اس کے سامنے ادب سے بیٹھ جاتے تھے۔ پھر حضرت نے ایک ٹھنڈی سانس کھینچی کہ آہ! جن کی نگاہوں سے جانور بھی محروم نہیں رہتے ان کی نگاہوں سے انسان کیسے محروم رہ سکتا ہے؟ علم کی حقیقت، اللہ کی محبت ان ہی علماء کو حاصل ہوئی جنہوں نے اللہ والوں کی صحبت میں اپنے نفس کا تزکیہ کرالیا۔ یہی اللہ والوں کا فیضانِ نظر ہے ورنہ علم کے صرف نقوش حاصل ہوتے ہیں۔ اسی کے متعلق حضرت مولانا محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے علماء کے سامنے یہ شعر پڑھا تھا ؎ دارالعلوم دل کے پگھلنے کا نام ہے دارالعلوم روح کے جلنے کا نام ہے اللہ کے عشق و محبت میں جب تک روح نہیں جلتی تب تک علم کا کچھ مزہ نہیں۔ بقول مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے حدیث پڑھنے پڑھانے کا لطف جب ہے کہ پڑھانے والا بھی صاحبِ نسبت ہو اور پڑھنے والا بھی صاحبِ نسبت ہو پھر دیکھو کیا لطف آتا ہے۔ نسبت مع اللہ کی ایک عجیب تمثیل دریا کو پانی کے تمام خواص پر ایک ہزار کتابیں پڑھادو، مگر دریا کے اندر پانی نہ ہو، مضمون پانی کا پڑھادو، لیکن دریا کے اندر پانی کبھی گذرے نہیں، وہ کیا جانے سوائے خاک اُڑانے کے، چاہے پانی پر پی ایچ ڈی کرلے،تخصص کرلے، لیکن خود پانی کی لذت سے محروم ہے اور اگر وہی دریا لبالب بھرجائے، خدا کی رحمت سے بارش ہوجائے تو دور سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس دریا میں پانی ہے، اس کی ٹھنڈک دور دور جاتی ہے۔ اسی طرح لاکھ کتابیں پڑھ لے لیکن اگر دل اللہ کی محبت سے خالی ہے تو دوسروں کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں کچھ نہیں، نہ یہ خود مزا پاتا ہے اور اگر دل میں اللہ کی محبت کا، نسبت مع اللہ کا پانی گذر جائے تو اس کی ٹھنڈک اور فیض دور دور جاتا ہے۔ اللہ والوں کی ٹھنڈک دور دور جاتی ہے۔