فیضان محبت |
نیا میں |
|
ذکر بے لذت بھی نافع ہے حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اگر ذکر میں مزہ نہ آئے تو بہ تکلف ذکر کیے جاؤ، ناغہ نہ کرو، دیکھو شروع شروع میں تمباکو کو کھانے سے قے ہوجاتی ہے، لیکن اگر اس بُری عادت کو جاری رکھے اور تمباکو کھاتا رہے تو ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ کھانا ملے نہ ملے لیکن تمباکو ملنا چاہیے، اگر نہیں ملتا تو پان بھنگی سے مانگ کر کھالیتا ہے۔ کہتا ہے کہ ؎ کہاں تک ضبط بے تابی کہاں تک پاس بدنامی کلیجہ تھام لو یارو کہ میں اب پان مانگوں گا تو فرمایا کہ جب بُری چیز کی عادت نہیں چھوٹتی تو اللہ کے نام کی اچھی عادت ڈالو، مزہ نہ بھی آئے تو بھی ذکر میں ناغہ نہ کرو، ایک دن ایسی عادت پڑجائے گی کہ اگر اللہ کا نام لیے بغیر سونا چاہوگے تو نیند نہیں آئے گی جب تک ان کو یاد نہ کرلوگے۔ حکیم الامت کی بات مان لو، حضرت کے الفاظ تک میں نے یاد کر رکھے ہیں کہ ذکر بے لذت سے بھی قلب پر معیت خاصہ کا انکشاف ہوجاتا ہے یعنی اللہ کا نام اتنا بڑا نام ہے کہ چاہے کچھ مزہ نہ آئے لیکن ان شاء اللہ معیتِ خاصہ، ولایتِ خاصہ سے اور نسبتِ خاصہ سے یہ شخص محروم نہیں رہے گا۔ ذکر بے لذت کے مفید ہونے کی ایک عجیب مثال جس کو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مزہ نہیں آتا ہے تو کیا نقصان ہے، اگر موتی کے خمیرہ میں کسی کو مزہ نہ آئے تو کیا موتی کا خمیرہ اس کو مفید نہ ہوگا؟ مکہ شریف میں ایک بڑے عالم سے سوال کیا گیا کہ صاحب! میں دارالعلوم چلا رہا ہوں ہزاروں فتنے میں، اہتمام کی فکر، گھر بار کی فکر، جب اللہ اللہ کرتے ہیں تو دل میں تو تشویش ہوتی ہے، ذکر میں دل ہی نہیں لگتا تو ایسے مشوش قلب کے ساتھ اللہ کا نام لینے سے کیا فائدہ ہوگا؟ ان عالم صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ تم اس کا جواب دو۔ میں نے عرض کیا کہ مکہ شریف میں جتنے دکاندار ہیں، حج کے چار مہینے کی کمائی سال بھر کھاتے ہیں، اس وقت ان کو اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ بیٹھ کر اطمینان سے کھانا کھالیں، دس گاہک کھڑے ہیں، دکاندار صاحب کے منہ میں ڈبل روٹی ہے، کھاتے جارہے ہیں