فیضان محبت |
نیا میں |
|
روح ہے۔ اس لیے کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں خدا کی محبت مانگی وہیں اللہ والوں کی محبت بھی مانگی اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَن یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ 19؎ اے خدا! مجھے اپنی محبت بھی دے اور اپنے عاشقوں کی محبت بھی دے اور ان اعمال کی محبت بھی دے جن سے تیرے عشق و محبت کی دولت ملتی ہے۔ علامہ سیدسلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس حدیث پاک میں خداتعالیٰ کی محبت اور اعمال کی محبت کے درمیان سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ والوں کی محبت کیوں مانگی، اس میں کیا راز ہے؟ فرمایا کہ اللہ والوں کی محبت ایسی چیز ہے جو خدا کی محبت اور اعمال کی محبت کے درمیان رابطہ قائم کردیتی ہے۔ اللہ والوں کے فیضانِ صحبت کے دو واقعات یعنی جو لوگ اللہ والوں سے محبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی محبت بھی دے دیتے ہیں اور اعمال کی توفیقات بھی دے دیتے ہیں۔ دیکھئے! اسی دور کا واقعہ ہے، جگر جیسا شرابی حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جارہا ہے اور عرض کررہا ہے کہ حضرت! میرے لیے چار دُعائیں فرمادیجئے، آپ کی صحبت کی برکت سے کتنے بڑے بڑے بدمعاش ولی اللہ بن گئے، آپ کی خدمت میں ایک شرابی آیا ہے، بدکار ہوں، فاسق ہوں مگر بڑی اُمید لے کے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی فضل فرمادیں گے۔ آپ میرے لیے چار دعائیں کردیجئے کہ میں شراب چھوڑ دوں، حج کر آؤں، ڈاڑھی رکھ لوں اور میرا خاتمہ ایمان پر ہوجائے۔ حضرت نے ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھادیئے اور جب اولیاء اللہ کے ہاتھ اُٹھتے ہیں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کو کیسا پیار آتا ہے۔ سلطان ابراہیم ابن ادھم کے طفیل ایک شرابی نے توبہ کی۔ وہ سڑک پر بے ہوش پڑا تھا۔ انہوں نے اس کا منہ دھویا اور قے صاف کی۔ اتنا بڑا سلطان الاولیاء اور ایک شرابی کی قے دھورہا ہے۔ جب ہوش میں آیا تو وہ پہچان گیا اور کہا کہ حضرت! آپ تارکِ سلطنت بلخ _____________________________________________ 19 ؎جامع الترمذی: 187/2، باب من ابواب جامع الدعوات،ایج ایم سعید