فیضان محبت |
نیا میں |
|
حقیقت کیا تمہاری تھی میاں آہ ؔ یہ سب امداد کے لطف و کرم تھے آج اتنا بڑا علامہ و عالم اپنی ساری تصنیفات اور سارے کمالات کی اپنے شیخ اور مرشد کی طرف نسبت کررہا ہے اور درحقیقت یہ بالکل صحیح ہے، تکلف نہیں۔ اگر اکیس دن انڈا مرغی کے پروں میں تسلسل کے ساتھ رہے اور اس میں جان آجائے، بچہ نکل آئے تو اس بچہ کو اپنا وجود ممنونِ حرارتِ تربیت مرغی سمجھنا چاہیے، ممنون رہنا چاہیے، اپنا ذاتی کمال سمجھنا احمقانہ اقدام ہوگا۔ اسی لیے حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کو مشایخ سے اور ذکر اللہ کی برکت اور تعلق مرشد کے باوجود فیض نہیں ہوا انہوں نے تسلسل کے ساتھ صحبت اختیار نہیں کی۔ جیسے اکیس دن تک انڈوں کو مرغی کے ساتھ رہنا چاہیے، اکیس دن تک اس کی گرمی پہنچنی چاہیے لیکن اگر اکیس دن کے بجائے دس بارہ دن انڈے کو رکھا، پھر مرغی کو بھگادیا یا انڈے کو ہٹادیا تو اس انڈے کو جان اور روح اور حیات نہیں ملے گی۔ اسی طرح اہل اللہ کی صحبت میں جو لوگ مسلسل نہیں رہتے، ان کے اندر ایمانی حیات اور نسبت مع اللہ پیدا نہیں ہوتی، چاہے کبھی خلافت بھی مل جاتی ہے۔ بعض وقت اہل اللہ اور اہل اللہ کے غلام و خادم کبھی آئندہ کی تکمیل کی اُمید پر خلافت دے دیتے ہیں یا مقام و جغرافیائی لحاظ سے کہیں بہت شدید ضرورت ہوتی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ بدعتی پیروں کا غلبہ ہے لہٰذا وہ قبل تکمیل خلافت دے دیتے ہیں۔ لہٰذا عطائے خلافت کو اپنی تکمیل کی دلیل نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ فکرِ تکمیل کے لیے وہ محرک ہے تاکہ اس کو کچھ حیاء آئے۔ جیسے کسی چور کو تھانیدار بنادیاجائے تو مارے شرم کے اب چوری نہیں کرے گا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ہم لوگوں کی خلافت ایسی ہی ہے کہ ہم سب کو اپنی حالت پر کچھ حیا اور شرم آئے۔ خانقاہ کیا ہے؟ اچھا میں اپنا وہ شعر بھول جاؤں گا اس لیے پیش کرتا ہوں۔ خانقاہ کی تعریف میں میں نے ایک شعر کہا ہے کہ خانقاہ کسے کہتے ہیں؟ اور خانقاہ کی حقیقت کیا ہے؟ وہ شعر یہ ہے ؎