ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
قسط : ٣ فضائل کلمہ طیبہ اور اُس کی حقیقت (حضرت مولانا محمد اِدریس صاحب اَنصاری رحمة اللہ علیہ ) جان کی قربانی : ٭ جب حضرت اَبو بکر اور حضرت طلحہ نے کلمہ پڑا تو اِن دونوں کو نوفل بن خویلد نے پکڑ کر ایک رسی سے باندھ دیاجس پر حضور ۖ نے اللہ تعالیٰ سے دُعافرمائی اَللّٰہُمَّ اکْفِنَا شَرَّ ابْنِ الْعَدَوِیَّةِ اے اللہ ! نوفل کے شر سے ہم کومحفوظ فرما۔(البدایہ ج ٣ ص ٢٩ لابن الکثیر) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں جب کلمہ پڑھنے والوں کی تعداد ٣٦ کو پہنچ گئی تو حضرت اَبوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور ۖ کی خدمت میں اِصرار کیا کہ آپ ظاہر ہو کرکھلم کھلا تبلیغ کیوں نہیں فرماتے توآپ نے جواب دیا یَا اَبَابَکْرٍ اِنَّا قَلِیْل اے ابوبکر ! ہماری تعداد ابھی تھوڑی ہے لیکن ابوبکر برابر ظاہر ہونے پر زور دیتے رہے اور اِس کا نتیجہ یہ ہواکہ رسول اللہ ۖ ظاہر ہوئے اور مسلمان خانہ کعبہ کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کرتقریر شروع کی رسول اللہ ۖ بھی وہاں تشریف فرماتھے گویاکہ اُمت میں سب سے پہلے دعوتِ اِسلام کا خطبہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دیا کفار نے جو آپ کا خطبہ سناتوآپ پر اور تمام مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور جتنا مارا گیا مسلمانوں کو مارا جس پرحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تویہ کیفیت ہو ئی کہ اُن ظالموں نے اُنہیں پاؤں میں ڈال کراِتنا ماراکہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اُسی وقت عتبہ بھی آپ کے نزدیک پہنچا اور اپنی نعل دار جوتوں سے آپ کے چہرے پر مارنے لگا اور آپ کے پیٹ پر چڑھ بیٹھا غرضیکہ مارتے مارتے آپ کایہ حال کر دیا کہ دیکھنے والے کوآپ کے چہرہ اور ناک میں کوئی فرق نہیں معلوم ہوتاتھااور بنوتمیم اُن کے کنبہ والے آپ کوایک کپڑے میں اُٹھا