ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
کرلے گئے اور اُن کو گھر پرپہنچادیا لیکن اُن کو یقین تھا کہ ابوبکر اب نہیں بچ سکتے اور اِس کے بعد ابو بکر کے کنبہ والے بنوتمیم بیت اللہ میں آکرکہنے لگے خدا کی قسم ! اگر ابو بکر مرگئے توہم عتبہ کو بغیر قتل کیے نہ چھوڑیں گے، اِس کے بعد یہ لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مکان پر اکٹھے ہو کر آئے اور ہوش میں لانے کے واسطے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے والداور بنو تمیم ابو بکر رضی اللہ عنہ کوآواز دینے لگے۔ شام کے بعد آپ کو ہوش آیا آپ نے جواب دیا تب یہ لوگ وہاں سے اپنے اپنے گھر واپس آئے اور اِن کی والدہ اُم الخیر سے کہنے لگے کہ دیکھنا اِن کے کھانے پینے کاخیال رکھنا، ہوش میںآنے کے بعد جب یہ لوگ چلے گئے اور اِن کی والدہ تنہائی میں پہنچیں اور آواز دی بیٹا ابو بکر آنکھیں کھولوبیٹا ہماری بات کا جواب دو آپ پھر ہو شیار ہوئے اور کہنے لگے میرے محبوب رسول اللہ ۖ کا کیا حال ہے ؟ تب اُن کی والدہ نے کہا مجھے تیرے ساتھی کی کوئی خبر نہیں اِس پر حضرت ابو بکر نے فرمایا اَماں جان ! آپ اُم جمیل کے پاس جائیے اور میرے محبوب دوست کاحال اُن سے مفصل معلوم کرکے آئیے۔ والدہ رات کے وقت بیمار کی دلداری کی غرض سے زخمی بیمار کو اُسی حالت میں چھوڑکر اُمِ جمیل کے پاس تشریف لے گئیں اور اُمِ جمیل سے کہنے لگیں کہ ابوبکر تجھ سے محمد بن عبد اللہ کا حال معلوم کرناچاہتے ہیں، اِس پر اُمِ جمیل نے کہاکہ نہ میں ابو بکر کو جانتی ہوں اور نہ محمد ( ۖ ) بن عبد اللہ کو۔ ہاں اگر توکہے تو تیرے بیٹے کے پاس چلی چلتی ہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی والدہ نے کہا اگر اِتنی تکلیف گوارا کرو تو تمہاری بڑی مہر بانی ہوگی شاید میرے بچے کی جان بچ جائے۔ یہ سن کر حضرت اُم جمیلاُن کی والدہ کے ساتھ چل پڑیں اور مکان پر پہنچ کر دیکھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہو کر بے ہوش پڑے ہوئے ہیں۔ اُمِ جمیل یہ دیکھ کر اُن کے قریب پہنچیں اور پکار پکار کر کہنے لگیں کہ ظالم قوم نے جو کچھ تیرے ساتھ کیا بہت برا کیا خدا اُن سے ضرور تیرا بدلہ لے گا، تب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُمِ جمیل کی آواز سن کر آنکھیں کھولیں اور اُن سے پوچھا اُم جمیل رسول اللہ ۖ کا کیا حال ہے ؟ اُمِ جمیل آہستہ سے کہنے لگیں تمہاری ماں سن رہی ہے خاموش ہوجاؤ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کوئی اندیشہ کی بات نہیں تم بے فکر رہو، اِس مرتبہ