ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
رہی جوبیت المال کے مصارف میں صرف ہوتی رہی۔ یہ توسیع بیت المال کی ایک شکل ہے، مجلس ِشوریٰ مصالح اُمت کے پیش ِ نظر اِس پر بھی غور کرسکتی ہے۔ ١ لیکن فقہاء کی واضح تصریح یہ بھی ہے کہ کسی مسلم یا غیر مسلم کی کوئی مِلک اَداء قیمت کے بغیر نہیں لی جا سکتی لَیْسَ لِلْاِمَامِ اَنْ یُّخْرِجَ شَیْئًا مِنْ یَدِ اَحَدٍ اِلَّا بِحَقٍّ ثَابِتٍ مَعْرُوْفٍ ۔ ٢ اَلبتہ قبیلہ بجیلہ کی طرح کوئی جماعت بطیبِ خاطر بیت المال کو ہبہ کر دے یابیت المال کے عطیہ کو واپس کردے تو وہ یقینا عند اللہ و عند الناس مستحق ِ شکریہ ہو گی اور طیبِ خاطر کے لیے خلیفہ ٔ وقت کچھ عطا کردے تو سنت ِ فاروقی اِس کی بھی اِجازت دیتی ہے۔ (واللہ اَعلم بالصواب) اُجرتِ اَملاک (کراء الارض) : ملک کی تعمیر و ترقی اور دفاعی لحاظ سے ملک کا اِستحکام حکومت کا مسلمہ فریضہ اور ایک بنیادی مقصد ہے، ضرورت اور حالات کے مطابق اِس کی صورتیں طے کی جائیں گی اور اِن پر عمل کیا جائے گا اِن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُفتادہ یالا وارث زمینوں کوکار آمد بنایا جائے اور اِس طرح بیت المال کے محاصل میںاِضافہ کیاجائے۔ یہ زمینیں بیت المال کی مِلک ہوتی ہیں اِصطلاحًا اِن کو '' اَرْضُ الْحَوْزِ '' یا''اَرْضُ الْمَمْلَکَةْ '' کہاجاتا ہے۔ یہ زمینیں عشری یا خراجی نہیں ہوتیں بیت المال اِن کوفروخت بھی کرسکتاہے اِن میں کرایہ کے لیے مکان بھی بنوا سکتاہے اور اِن کو کاشت کے لیے اُجرت یعنی کرایہ پر بھی دے سکتا ہے کہ کاشتکار مقرر ہ اُجرت (کرایہ) اَدا کرتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ کاشتکاروں پر جبر وقہر قطعًا نہ ہو ۔اِس سلسلہ میں جاگیر دارانہ نظام کی صورت بھی بن سکتی ہے مثلًا کاشتکاروں کی زندگی کسی رقبہ زمین کے ساتھ اِس طرح جوڑ دی جائے کہ وہ وہاں سے کہیں نہیں جا سکتے اور پیدا وارہو یا نہ ہو اُن کو مقررہ کرایہ لا محالہ اَدا کرنا ہوگا، شریعت نے اِس کو جائز قرار نہیں دیا بلکہ حرام کہا ہے اور اِس کی سخت ممانعت کی ہے وَاِجْبَارُہ عَلَی السُّکْنٰی فِیْ بَلْدَةٍ مُتَعَیَّنَةٍ یُعْمِرُ دَارَہ وَیَزْرَعُ الْاَرَاضِیْ حَرَام ۔ ٣ ١ کتاب الخراج لامام اَبی یوسف ص ٦٨، ٦٩ ٢ کتاب الخراج لابی یوسف ص ٦٥ والتفصیل فی رد المختار فی باب العشر والخراج والجزیہ ص ٣٥٣ تا ٣٥٥ ج٣ ٣ تفصیل کے لیے ملا حظہ ہو۔ (دُر مختار رد المختار ج ٣ باب العشر والخراج والجزیة)