ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
کے شاگرد تھے مؤرخین لکھتے ہیں کہ فارابی اور اِبن سینا سے اِن کا علمی مقام بلند تھاوہ اپنے اُستاذ کے متعلق لکھتے ہیں کہ اُن کو ایک رائی کی بھی اِستطاعت نہیں تھی، لغت کے سب سے بڑے اِمام خلیل ابن احمد جس جگہ پڑھاتے تھے جب اُس جگہ سے ہجرت کرنے لگے تو شاگرد بہت پر یشان ہوئے ،اُستاد نے کہا کاش دن رات میں اگر آدھ سیر با قلا (باقلہ) بھی ملتا توکبھی نہ جاتا لیکن نہ مجھ میں قوت ہے اور نہ تم تین سو شاگردوں میں یہ قدرت ہے کہ آدھ سیر با قلا کہیںسے لے آیا کرو۔ ایک بات یہ بھی بتادُوں کہ نا واقف لو گوں کے اِعتراضات سے ہرگز تنگ نہ ہونا چاہیے ایسا ہوتا ہی رہا ہے۔ اِمام رازی جو بہت بڑے اِمام بھی تھے اور بہت بڑے دولت مندبھی، جنہوں نے شہاب الدین غوی کو اَسی لاکھ روپے دیے تھے گویا اُن کے پاس علم کی دولت بھی تھی اور ظاہری یعنی دُنیاوی دولت سے بھی مالا مال تھے وہ جب منبرپر خطبہ دینے کھڑے ہوتے تو لوگ پر چیوں پر مختلف قسم کے اِعتراضات لکھ کر پیش کرتے تھے آپ اُن سب پرچیوں کو پڑھ لیتے لیکن اُن کا جواب نہ دیتے جواب میں صرف یہ شعر کہہ دیا کرتے تھے : اَلْمَرْئُ مَا دَامَ حَیًّا یُسْتَھَانُ بِہوَ یُعْظَمُ الرَّزْئُ فِیْہِ حِیْنَ یُفْتَقَدْ ''آدمی جب تک زندہ رہتا ہے اُس کی بے قدری کی جاتی ہے اور جب وہ (مر کر) جاتا رہتا ہے تو اُس کا فقدان بڑی مصیبت ہوتی ہے۔ '' میرے عزیز طلبہ ! کسی کی تر شروئی سے ہرگز دل بر داشتہ نہ ہوں، لو گوں کے اِعتراضات کی پر واہ نہ کریں علم کو سیکھیں پھیلائیں خود بھی اُس پر عمل کرتے رہیں اور لو گو ں کو بھی عمل کی دعوت دیں۔ یاد رکھو عمل کے بغیر علم وبال ہے۔ حضرت مدنی قدس سرہ : میں ایک دفعہ دیو بند گیا وہاں حضرت مولانا سیّد حسین اَحمد مدنی رحمةاللہ علیہ کے گھر مہمان ہوا