ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
فضیلت ِ علم اور اہلِ علم ( حضرت علامہ مولانا شمس الحق صاحب اَفغانی رحمة اللہ علیہ ) نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِےْمِ اَمَّا بَعْدُ ! بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ( قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ط اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ) (سُورة الزمر : ٩ ) معزز حاضرین علماء واَساتذہ کرام اور طلبہ ٔ جامعہ مدنیہ ! میں نے قرآنِ مجید کی ایک آیت پڑھی ہے۔اِس وقت مجھے تین باتیں عرض کرنی ہیں پہلی بات علمِ دین کامقام، دُوسری علمِ دین سے متعلق فرائض اور تیسری علم کے فرائض سے کوتاہی کے نقصانات۔ مقام ِ علم اور اہلِ علم : علمِ دین اور اہلِ علم کا مقام اِس آیت میں بیان کیا گیا ہے اِس آیت میں تین الفاظ ایسے اِستعمال ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں علمِ دین اور عالم کا مقام بہت اُونچا ہے قرآن کی عام اِصطلاح یہ ہے کہ اہم اعلان شاہی طریقے سے کیاجاتا ہے خود ہر حکومت کا یہ دستور ہے کہ ضروری اعلان ایک خاص طریقہ سے کرتی ہے حکومت روزانہ کوئی نہ کوئی کام کرتی رہتی ہے لیکن جب اہم معاملہ ہوتا ہے مثلاً جنگ، ون یونٹ، قحط، وغیرہ تو باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے قرآن بھی مقاصد ِ مہمہ کے متعلق باقاعدہ اور شاہی اعلان لفظ ( قُلْ ) سے کرتا ہے یہاں بھی اہمیت کے لیے لفظ ( قُلْ ) سے اعلان فرمایا اِرشاد ہے : ( قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ط اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ) (سُورة الزمر آیت ٩ ) ''بتلادیجیے کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں ؟ سمجھتے وہی ہیں جو عقل والے ہیں۔''