ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
سڑک پر پہنچا دیا گیا ہے یہ ایک شاہراہ ہے اِس کے اُوپر جب تک چلتے رہو گے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا رہے گا ،یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اب ہم کو ذکر کی ضرورت نہیں اور نہ اِس پر مغرور ہونا چاہیے اور نہ نا اُمید ہونا چاہیے ایمن مشو کہ توسنِ مردار را در سنگلاخ بادیہ پیما بریدہ اَند تو نااُمید ہم مباش کہ رِندانِ بادہ خوار ناگہ بہ یک خروش بہ منزل رسیدہ اَند ١ جن بھائیوں نے اِس طرح کامیابی حاصل کی ہے اُن کو اِجازت دی جاتی ہے اُن کو ہمیشہ ذکر پر مداومت اور'' ذاتِ مقدسہ'' کا مراقبہ کرتے رہنا چاہیے، غافل ہونا درست نہیں ذکر کے بہت سے درجات ہیں اور'' ذاتِ مقدسہ'' کے مراقبہ میں بہت سے درجات ہیں ۔ ذکر کے معنی اور درجے : اور ذکر کے دوسرے معنی سلوک کے ہیں اِس کے دو درجے ہیں : وصول اور قبول ''وصول'' کے معنی ذاتِ مقدسہ کا مشاہدہ حاصل ہونا ہے۔ اور'' قبول'' کے معنی اللہ کے یہاں مقبول ہو جانا ۔ اِیمان کے بغیر کمال حاصل نہیں ہوسکتا : تو وصول صرف متقین اور مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں کبھی غیر مسلم بھی اِس کو حاصل کر لیتے ہیں جیسے کوئی چور کمنا لگا کر بادشاہ کے محل میں پہنچ جائے یاکوئی مجرم بادشاہ کے حضور میں لایا جائے۔ ایک مرتبہ ایک جوگی پہاڑوں میں رہتا تھا حضرت گنگوہی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے پندرہ پندرہ کوس ٢ کی چیزیں نظر آتی ہیں مگر مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ بغیر مسلمان ہوئے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا تو ١ ترجمہ : تو مطمئن نہ ہو کیونکہ مردار وحشی کو بھی سنگلاخ جنگل میں مسافروں نے کاٹ کھایا ہے۔ تو نااُمید بھی نہ ہو کیونکہ رِندان بادہ خوار اَچانک ایک غیبی آواز سے منزل تک پہنچ گئے ہیں۔ ٢ دو میل کے لگ بھگ