ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
نکتہ : علامہ تفتا زانی نے لکھا ہے کہ اِستفہام اِنکاری بعض اَوقات توبیخ کے لیے ہوتا ہے تو گویا یہاں اللہ تعالیٰ نے ڈانٹ پلائی، عالمِ دین اور غیر عالمِ دین کو برابر کرنے والے کو، جو شخص غیر عالمِ دین کو خواہ گورنر ہو یا بادشاہ یا یورپ کی یو نیورسٹیوں کا سند یافتہ، عالمِ دین کے برابر سمجھے گا وہ حق تعالیٰ کے قہر اور اُس کی ڈانٹ کے نیچے آجائے گا کیونکہ علمِ دین کا مقام بہت اُونچا ہے جو علمِ دین نہیں رکھتاہے وہ خواہ کرۂ اَرضی کا واحد با دشاہ کیوں نہ ہو عالمِ دین سے کم ہے، اللہ اپنے کلامِ عظیم میں کسی کا صرف نام لے لے تب بھی فخر ہے کیونکہ اُس کی ذات بہت بلندہے لیکن یہاں تو عالمِ دین کی نہایت زوردار تعریف فرمائی ہے ۔ نکتہ : دُوسری بات جو اِس آیت میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ باوجودیکہ ( یَعْلَمُوْنَ ) فعل متعدی ہے لیکن اِس کا مفعول ذکر نہیں کیا یعنی یہ تو فرماد یا گیا کہ علم رکھتے ہوں لیکن یہ نہیں ذکر کیا گیا کہ کس چیز کاعلم رکھتے ہوں کیونکہ بتانا یہ ہے جب'' علم'' کا لفظ بولاجاتاہے تومفہوم اُس کا متعین ہوتاہے ذکرکرنے کی ضرورت نہیں جیسے جوتی کا مفہوم متعین ہے کہ پاؤں کے لیے ہوتی ہے اور جیسے ٹوپی کا کہ سر کے لیے ہوتی ہے (یعنی جوتی کے تلفظ کے ساتھ اگر پاؤں کا ذکر نہ بھی کریں توبھی سمجھ میں آجاتاہے کہ یہ پاؤں کے لیے ہے اِسی طرح ٹوپی کے تلفظ سے اُس کا مفہوم اور مقام یعنی ''سر'' لا محالہ سمجھ میں آجاتا ہے وغیرہ)۔اِسی طرح'' علم'' کا مفہوم بھی متعین ہے یعنی ''علم ِدین'' مطلب یہ ہے کہ علم کامتعلق دین ہے گو علومِ دنیویہ بھی ہوتے ہیں لیکن قرآن نے مفعول کو حذف کرکے بتلایا کہ یہ علم دین اِتنا متعین ہے کہ ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں جب بھی علم کا لفظ بولا جائے گا تو سب سے پہلے علم دین ہی سمجھا جائے گا اِس تعین کی وجہ سے اِس کے تذکرہ کی حاجت نہیں۔ دیکھیں ! علم دین بھی علم ہے اور علم دُنیا بھی علم ہے لیکن جس علم کا'' معلوم'' بلند ہوگا وہ علم