ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
( اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِہِمْ )اور فرمایا گیا (یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًاکَثِیْرًا وَّسَبِّحُوْہُ بُکْرَةً وَّاَصِیْلاً)ذکر کی کوئی حد نہیں، نماز کا وقت مقرر ہے، حج عمر میں ایک مرتبہ فرض ہے، زکوة کی بھی حد مقرر ہے مگر ذکر کی کوئی حد نہیں۔ حضور ۖ سے دریافت کیا گیا کہ اللہ کے نزدیک کس کا مرتبہ زیادہ ہے تو آپ نے فرمایا کہ اَلذَّاکِرُوْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذَّاکِرَاتِ اللہ کے نزدیک جو مرد اور عورت کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیںوہ اُونچے مرتبے والے ہوں گے اور فرمایا کہ کوئی چیز اِتنا عذاب سے نجات دلانے والی نہیں جتنا کہ اللہ کا ذکر۔ حضور ۖ سے سوال کیا گیا کہ جہاد عذابِ آخرت سے نجات دلانے میں بہتر ہے یا اللہ کا ذکر ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ذکر اللہ جس قدر عذاب سے نجات دلانے کے لیے کافی ہے اُتناجہاد بھی نہیں، جو شخص جہاد کرتے کرتے زخموں سے بھر جائے یا لڑتے لڑتے اُس کی تلوار ٹوٹ جائے تو بھی اللہ کا ذکر کرنے والا اُس سے افضل ہے۔ حقیقی حیات، ایک تاریخی واقعہ : اور حضور ۖ فرماتے ہیں کہ ا للہ کا ذکر کرنے والا مثل زندہ کے ہے اور نہ کرنے والا مثل مردہ کے۔ تو میرے بھائیو ! اگر ذکر سے غفلت ہوتو پھر وہ موت ہے۔ اِس سلسلہ میں ایک تاریخی واقعہ بھی ہے، اُندلس کو جب عیسائیوں نے فتح کیا اور اُس پر اُن کا قبضہ ہوا تواُنہوں نے وہاں بہت سی قبریں دیکھیں جن پر کسی کی عمر کے بارے میں لکھا ہوا تھا چھ مہینہ ! کسی کی عمر کے بارے میں لکھا ہواتھا ایک سال ! اور کسی کے بارے میں تین مہینہ ! تویہ اُن کی سمجھ میں نہ آیا کہ ہیں تو یہ اِتنی بڑی بڑی قبریں اور لکھا ہے یہ ! تواُنہوں نے اِس کے بارے میں وہاں کے لوگوں سے دریافت کیا تو یہ معلوم ہوا کہ تمام عمر اُنہوں نے لہو و لعب میں گزاری اور اَخیر میں تین مہینے اللہ کے ذکر اور اُس کی یاد میں گزرے توہمارے نزدیک زندہ وہ ہے جو اللہ کے ذکر کے ساتھ ہو، بڑی قبر والا اللہ کے ذکر سے غافل