ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
مگر قرآنِ حکیم نے'' ضربیہ''( ٹیکس) نہیں بلکہ'' قرض'' کا لفظ اِستعمال فرمایا ہے اور قرض بھی کسی اور کے لیے نہیں اللہ کے لیے، اِس لطیف اور وجد آفریں اِصطلاح کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے، کچھ اِشارے یہاں بھی پیش کیے جا رہے ہیں : (١) ابھی دعوتِ اِسلام کا آغاز ہوا تھا کہ سورۂ مزمل کی آخری آیت کے چند الفاظ میں پورا پروگرام پیش کر دیا گیا ہے : '' نماز کی پابندی رکھو،زکوة دیتے رہواور اللہ کو اچھی طرح قرض دو (یعنی اخلاص سے)'' (٢) ''اللہ کے راستہ میںجہاد کرواوریہ یقین رکھوکہ اللہ سب سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔'' ١ ......... تو ساتھ ساتھ قرض کی تر غیب بھی فرمائی گئی : ''کون ہے جواللہ تعالیٰ کو خوش دلی کے ساتھ قرض دیتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اُس کا قرض دُگنا چوگنا زیادہ کر کے اَدا کرے۔( سورۂ بقرہ آیت ٢٤٥) (٣) سورۂ محمد (ۖ) کی آخری آیتیں بار بار گزر چکی ہیں جن میں ترغیب کے علاوہ تفہیم بھی ہے کہ قوم اور آپ دو جدا جدا چیزیں نہیں ہیں کہ اُن کی ضرورتیں الگ ہوں جس کو ''قومی ضرورت'' کہا جاتا ہے وہ خود آپ کی اپنی ضرورتیں ہیں، اگربخل کرتے ہوتو خود اپنے آپ سے بخل کرتے ہو۔ سورۂ بقرہ میں اِرشاد ہوا : ''اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور ایسا نہ کرو کہ (قومی ضرورتوں سے غافل ہوکر) اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دو۔'' (آیت ١٩٤) بایں ہمہ نوعِ اِنسان اور خلقِ خدا کے عمومی مفاد کو سامنے رکھ کر یہ قرض دیا جا رہا ہے تواللہ تعالیٰ خود اِس کواپنی مدد قرار دیتا ہے اور پختہ وعدہ کرتا ہے کہ : (وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہ ط اِنَّ اللَّہ لَقَوِیّ عَزِیْز ) (سُورہ حج : ٤٠) ''جو خدا کی مدد کرے گا یقینا اللہ تعالیٰ بھی اُس کی مدد فرمائے گا۔'' ١ سورۂ بقرہ آیت ٢٤٣