ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2016 |
اكستان |
|
(٣) جسمانی تر بیت کے ساتھ رُوحانی اور اَخلاقی تر بیت یعنی تعلیم بھی اُتنی ہی ضروری ہے رب العالمین کاعطافرمودہ دستور ِاَساسی اِس کو بھی اُتنی ہی اہمیت دیتاہے اِس سلسلہ میں کچھ اِشارات ''قانون یاتعلیم و تربیت اور تقسیمِ فرائض'' کے باب میں گزر بھی چکے ہیں۔ اِن ہمہ گیر فرائض کو سامنے رکھ کر آمدنی کاموازنہ کیاجائے گا اگر آمدنی ناکافی ہے تواُس کو پورا کرنے کے لیے آج کل کی اِصطلاح میں خسارہ کو ختم کرنے کے لیے اَصحاب ِاِستطاعت سے مزید مطالبات کیے جائیں گے، اِن مطالبات کو''ضرائب'' کا عنوان دیاگیاہے۔ (٤) ''ضرائب'' کاعنوان دُنیاوی حکومتوں کے قوانین کے لحاظ سے موزوں ہوسکتا ہے مگر اِیثار و اَخلاص کی جو رُوح قرآنِ حکیم پیدا کرتا ہے اُس کے لحاظ سے یہ عنوان غیر موزوں ہی نہیں بلکہ توہین آمیز بھی ہے، ضرب کے معنی مقرر کرنا اور'' ضربیہ'' ١ '' ٹیکس'' کو کہا جاتاہے جو کسی پر مقرر کردیا جائے۔ اِس لفظ کے ایک رُخ سے جبرو قہر اور دُوسرے رُخ سے خود غرضی، تنگدلی، ذخیرہ اَندوزی اور حرص و طمع کی بو آتی ہے۔ گویا خلق خدا بھوک اور فاقہ سے تباہ حال ہے اُن کی زندگی برباد اور اُن کی اَولاد کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے، سر حدوں پر دُشمن منڈلا رہا ہے مگر اَصحاب ِدولت کا دل نہیں پسیجتا اُن کے سینوں میں گوشت کے لو تھڑوں کی بجائے پتھر بھر دیے گئے ہیں لہٰذا ملک کے اَربابِ حل و عقد مجبور ہوتے ہیں کہ اِن پتھروں میں جونک لگائیں اور ایساقانون بنائیں کہ سنگدل سرمایہ داروں کی تجوریوں سے کچھ برآمد کیا جاسکے قرآنِ مجید اِس کو'' فسادالارض'' قرار دیتاہے۔ ٢ جب آمدنی کے معینہ مدات ناکافی ہوں گے توبلا شبہ آمدنی بڑھانے کی ضرورت ہوگی اور کچھ ہنگامی محاصل جن کو آج کل اِصطلاح میں''ایمر جنسی ٹیکس'' کہاجاسکتا ہے اَغنیاء اور اہلِ ثروت پر عائد کیے جائیںاُن کو'' ضرائب'' کہاجاتا ہے۔ مالکی مسلک کے مشہورفقیہ اور محدث علامہ اِبن حزم نے اِس کے دلائل پیش کیے ہیں۔ ٣ ١ اِس کی جمع ضرائب ہے ۔ ٢ مطالعہ فرمائیے سورۂ قصص آیت ٧٧ ، سورہ اَعراف آیت ٨٥، ٨٦، سورۂ ہود آیت ٨٣، ٨٤ وغیرہ ذالک من الایات ٣ ملا حظہ ہو : اِسلام کا اِقتصادی نظام اَ ز مجاہد ِ ملت ص ١٢٢، ٣٤٧،٣٥٤