ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
اگرچہ یہ ایک لطیفہ ہے مگر اِنسان کی اُمیدیں واقعتا لمبی ہوتی ہیں بچپن میں یہ خیال کرتا ہے کہ جوانی آئے گی جوانی میں بڑھاپے کی اُمید میں رہتا اور جب بڑھاپا آتا ہے توپھر بھی وہ یہی خیال کرتا ہے کہ ابھی تو بہت زند گی باقی ہے، فلاں صاحب نے اِتنی زیادہ عمر پائی فلاں نے اِتنی زیادہ عمر پائی، بس ایسی ہی اُمیدیں باند ھے رہتا ہے یہاں تک کہ دُنیا ئے فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔ یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ہر طرح کی اُمید نقصان دہ نہیں ہوتی، اُمید کے سہارے اِنسان زندہ رہتا ہے اگر اُمید نہ ہو تی تو بیمار ہوتے ہی اِنسان اپنی زندگی سے نا اُمید ہو جاتا اور فکر و غم اِس قدر شدت اِختیار کر جاتا کہ جان لیوا ثابت ہوتا، ہاں اَلبتہ شیخ چِلّی کی طرح اُمیدوں کے محل باندھنا منع ہے اُمیدوں کی بہتات ہلاکت میں ڈالتی ہے۔ آنحضرت ۖ نے ایک دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا لاَ اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ١ گویا یہ بتلایا کہ تم اپنی خود ذمہ دار ہو یعنی اِس اُمید پر عمل چھوڑ دینا صحیح نہیں کہ تم نبی کی بیٹی ہو۔ اِنسان کو چاہیے کہ اللہ سے رحمت کی اُمید اور رسالت مآب ۖ کی شفاعت کی اُمید ضرور رکھے مگر ساتھ ساتھ عمل بھی کرے، صرف شفاعت یا رحمت ہی پر بھروسہ کر کے عمل کو سرے سے ترک کرنا اِسلامی تعلیم نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اپنی مر ضیات پر چلنے کی تو فیق مرحمت فرمائے، آمین۔ (بحوالہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور یکم مارچ ١٩٦٨ئ) ١ مشکوة شریف کتاب الرقاق رقم الحدیث ٥٣٧٣