ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
حضرت حاجرہ رضی اللہ عنہا کو مکہ کے غیر آباد جنگل میں چھوڑ کر واپس ہوتے ہیں، بیوی کہتی ہے میرا کیا قصور ہے جو اِس لق و دق جنگل میں مجھے اور اِس شیر خوار بچہ کو چھوڑ کر جا رہے ہو تو فرماتے ہیں کہ اللہ کا حکم اِسی طرح ہے، بچوں سے اُسی وقت تک محبت ہوجب تک کہ اللہ تعالیٰ کاحکم ہو ورنہ کیسے بچے اور کیسی اُن کی محبت۔ یہی اِبراہیم علیہ السلام اِسماعیل علیہ السلام کو محض اللہ کے حکم سے ذبح کرنے کے لیے لے گئے اور اُن کے گلے پر چھری چلادی۔ صدیق ِاکبر رضی اللہ عنہ سے اُن کے لڑکے نے اِسلام لانے کے بعد کہا کہ اَبا جان ! جنگ کے اَندر فلاں موقع پر آ پ میری تلو کی زَد میں آگئے تھے میں نے صرف باپ سمجھ کر آپ کو چھوڑدیا، صدیق ِاکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا خدا کی قسم ! اگر تو میری تلوار کی زَد میں آجاتا تو اللہ کے حکم کی وجہ سے میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا۔ اِمام غزالی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اِنسان (یعنی مسلمان) کو لازم ہے کہ دل کو مال کی محبت سے الگ کردے اور مخلوق سے اِنقطاع کر لے تاکہ مال اور مخلوق سے دل پاک اور صاف ہو جائے اور جس صفت سے آدمی کا خالی رہنا ممکن نہیں ،چاہیے کہ اُس کے درمیانی حصہ پر قائم رہے جس طرح پانی گرمی اور سردی سے خالی نہیں ہے تو خراب اور نقصان دہ ہے اور جب حدِّ اِعتدال پر ہو تو دونوں سے خالی ہے توہر صفت میں درمیانی درجہ کا جو حکم ہے وہ اِسی راز کی وجہ سے ہے۔تو اب دل پر نظر کر نی چاہیے کہ سب سے ٹوٹ کر حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو، حق تعالیٰ فرماتا ہے (قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ) بلکہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی خود حقیقت یہی ہے۔ اِس تقریر سے آپ کو اَندازہ ہو گیا ہوگا کہ مسلمان کی شان یہ ہے کہ اگر وہ کسی کام کو کرتاہے تواللہ کے حکم کے ماتحت اور اگر وہ چھوڑتا ہے تو اللہ کے حکم کے ماتحت، اُس کے نزدیک ثواب کی وہی چیز ہے جس کے ثواب دینے پر اللہ نے فیصلہ فرمایا ہے اور وہ چیز بے چون و چرا قابلِ عذاب اور قابلِ نفرت ہے جس کی بابت اللہ نے عذاب کا فیصلہ فرمایا ہے۔