ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
اَلَا اُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ اَعْمَالِکُمْ وَاَزْکَاہَا عِنْدَ مَلِیْکِکُمْ وَاَرْفَعِھَا فِیْ دَرَجَاتِکُمْ وَخَیْرٍ لَّکُمْ مِّنْ اِنْفَاقِ الذَّھَبِ وَالْوَرِقِ وَخَیْرٍ لَّکُمْ مِّنْ اَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا اَعْنَاقَہُمْ وَ یَضْرِبُوْا اَعْنَاقَکُمْ ،قَالُوا: بَلٰی ، قَالَ : ذِکْرُاللّٰہِ۔ ١ ''دیکھو میں تمہیں ایسا عمل بتا رہا ہوں جو تمہارے رب کے یہاں سب سے بہتر ہے جس سے تمہارے درجے بلندہوتے ہیں اور تمہارے لیے سونے اور چاندی کے خرچ کرنے سے بھی زیادہ بہتر ہے اور تمہارے لیے اِس سے بہتر ہے کہ دُشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے تم اُن کو قتل کر دو اور وہ تمہیں قتل کر ڈالیں۔صحابہ کرام نے عرض کیا کیوں نہیں ضرور بتائیں وہ عمل کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کا ذکر ۔'' مختصر یہ کہ ذکر اللہ کو سب سے افضل قرار دیا اِس کو اُن تمام قربانیوں پر تر جیح دی۔ بھائیو ! آج ہم اِس کی قدر نہیں جانتے قیامت میں اِس کی قدر معلوم ہو گی، مختلف عنوانوں میں جناب ِ رسول اللہ ۖ اِس کا ذکر فرماتے ہیں اور اِس کی تر غیب دلا تے ہیں۔ قرآنِ پاک میں قیامت کا ایک نام یَوْمَ الْحَسْرَةْ ہے کَمَا قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی (وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ ) آقائے نامدار ۖ سے سوال کیا گیا کہ روزِ قیامت کا فر و منافق کے لیے یَوْمَ الْحَسْرَةْ ہے کہ کفرو نفاق کی وجہ سے حسرت کریں گے لیکن مومن کے لیے یَوْمَ الْحَسْرَةْ کیوں ہوگا جب مومنین نے قرآن و حدیث کے مطابق اپنے عمل کوسنوارا ہے وہ کیوں اَفسوس کریں گے ؟ آنحضرت ۖ نے جواب دیا بیشک، مطیع اور فرما نبردار لوگ بھی اَفسوس کریں گے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنے یاد کرنے پر ہر ہر مرتبہ کے ذکر پر اِتنا بڑا اَجر دے گا تب ہر ایک اَفسو س کرے گا کہ میں نے سو ہی مرتبہ کیوں ذکر کیا، میں نے ہزار ہی مرتبہ پر کیوں کفایت کی، لاکھ مرتبہ یا کروڑ مرتبہ پر ہی کیوں قناعت کی اور کیوں نہیں کیا۔ غرضیکہ ہر مطیع اور فرما نبردار بھی اَفسوس کرے گا کہ اور ذکر کرتا تو اور غیر معمولی اَجر پاتا۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں ذکر کے لیے کوئی حد کوئی غایت کوئی نہایت نہیں۔ ١ مشکوة شریف کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٢٦٩