ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2016 |
اكستان |
|
لیکن اگر اِس طرح کا تعاون نہیں کرتے بلکہ اگر اِن کو مجاہدین کے ساتھ بھیجا جائے تو اَندیشہ ہے کہ اُن کی شرکت خطرناک ہوگی اِس بنا پر ملکی دفاع اور تحفظ کی پوری ذمہ داری مسلمانوں ہی کو برداشت کرنی پڑتی ہے تو اِس صورت میں اُن پر جزیہ لازم ہوتا ہے۔ حضراتِ فقہاء نے تصریح کر دی ہے کہ دولت سمیٹنا جزیہ کامقصد نہیں ہوتا بلکہ محض جزوی تدارک اِس کا مقصد ہوتا ہے۔ بے شک یہ ایک اِمتیازی ٹیکس ہوتا ہے جو مسلمانوں پر نہیں ہوتا صرف غیر مسلموں پر ہوتا ہے اور چونکہ ایک مذہبی حکومت کی طرف سے ہوتا ہے تو اِس کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ مذہب کی طرف متوجہ ہوں، مسلمانوں کے طریقوں کو پرکھیں اور اُن کے ذہن مطمئن ہوں تو یہ مذہب قبول کریں(المبسوط ص ٧٨) مگر جہاں تک مالی مفاد کا تعلق ہے تو جزیہ کو اِن مالی ذمہ داریوں سے کوئی نسبت نہیں ہوتی جو مسلمانوں پر عائدہوتی ہیں۔ (٣) قرآنِ پاک کی تصریحات کے بموجب مسلمان ''حزب اللہ'' اور''اَنصار اللہ'' ہیں اِن کی جانیں اور تمام مال خدا کے ہاتھ بِکے ہوئے ہیں ١ جہاد اِن پر فرض ہے دفاع اِن پر فرض ہے لہٰذا اِن کو جان بھی قربان کرنی ہے اور مال بھی۔ یہ قربانی اُن کے ذمہ نہیں ہے جن سے جزیہ لیاجاتا ہے آنحضرت ۖ کے دورِ مسعود میں رمضان ٨ھ میں مکہ پر فوج کشی ہوئی، حنین اور طائف کے غزوات پیش آئے اِن سے چند ماہ پہلے غزوہ موتہ اور چند ماہ بعد رجب ٩ھ میں غزوہ تبوک ہوا، اِن تمام غزوات خصوصاً تبوک کی مہم کے وقت حالات نہایت نازک تھے، مہم اِتنی بڑھی کہ تیس ہزار مجاہدین نے شرکت کی جس کی نظیر اُس وقت تک اِسلامی تاریخ میں نہیں تھی، ایک ماہ کی مسافت کو طے کرنا پڑا،بیت المال کااُس وقت وجود ہی نہیں تھا، ایک طرف فصل تیار دُوسری طرف مسلمانوں کے ہاتھ خالی اِس تنگدستی کے باوجود تمام خرچ مسلمانوں نے برداشت کیا۔ اِن تینوں معرکوں سے پہلے خیبر فتح ہو چکا تھا جہاں کے یہودی کافی مالدار تھے مگر اِن معرکوں کے نام پر کوئی ٹیکس توکیا لگایا جاتا آنحضرت ۖ نے کسی یہودی یا عیسائی سے اپیل بھی نہیں کی، صرف مسلمانوں سے چندہ کیا اور مسلمانوں نے حیثیت سے بڑھ کر چندہ دیا اور صرف مسلمانوں ہی نے اِن تمام مہموں میں شرکت بھی کی کیونکہ یہی تھے جو رضائے اِلٰہی