ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
دو ہفتے تک پلنگ پر پڑا رہا، اُن دِنوں حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمة اللہ علیہ کی دُعا یاد آتی رہی اور میری آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ اَلحمد للہ ! اَب حالت بہت اچھی ہے، کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں اور آہستہ آہستہ چھڑی لے کر چلتا پھرتا ہوں بزرگ حضرات کا پسندیدہ ایک شعر آج کل دُعاؤں میں پڑھتا ہوا رقت کی کیفیت میں ڈوب جاتا ہوں آنکھیں پُر نم ہوجاتی ہیں۔ مایم پُر گناہ تو دریاے رحمتی جائے کہ فضل تست چہ باشد گناہ ما (٣ جنوری ١٩٩٩ئ) ٭ یہاں تک حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ کے مکاتیب ِگرامی سے اَنمول ہیرے چنے گئے، حاجی صاحب کا بزرگوں سے تعلق تھااِسی لیے بزرگ بھی اُن سے محبت کا معاملہ فرماتے تھے۔ حاجی صاحب کے والد محترم کا اِنتقال ہوا توسیّد الملّت حضرت مولانا سیّد محمد میاں صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ نے جو تعزیتی مکتوب حاجی صاحب کو تحریر فرمایا تھا وہ تبرکًا نقل کیا جا رہا ہے : محترم حاجی صاحب دام لطفکم اَلسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ عزیزم حامد میاں سلمہ کے خط سے محترم والد صاحب کی وفات کا علم ہوا صدمہ ہوا ، توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو رحمت اور مغفرت سے نوازا ہوگا۔ اَفسوس ! (کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ) کا کلیہ ایسا ہے کہ اِس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں، بندے کی سعادت یہ ہے کہ راضی برضائِ مولیٰ رہے، اگرچہ بزرگوں کا سایہ سراسر برکت ہوتا ہے اُن کی زیارت برکت اُن کی خدمت برکت اُن کی نصیحت برکت بلکہ اُن کا غصہ بھی برکت ہوتا ہے، اِن سب برکتوں سے محرومی پر جس قدر اَفسوس کیا جائے کم ہے مگر تقدیر میں تبدیلی ممکن نہیں۔ اَب حصولِ برکت کی شکل یہ ہے کہ اُن کی نصیحتوں اور بھلائیوں پر عمل ہو اور اُن کی طرف سے جو سلسلے خیر کے