ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
اہلِ ثروت کے لیے سنت پر چلنے کا طریقہ : اِس حدیث شریف میں ایک تو حالت معلوم ہورہی ہے کہ رسولِ کریم علیہ الصلوة والتسلیم نے اپنی حالت اپنے اِختیار سے کتنی سادہ رکھی ہے یہی پسند فرمایا ہے اور ہو سکتا ہے کہ کوئی کروڑ پتی ہو اور وہ پھٹے ہوئے کپڑے پہنے اور وہ یہی کہے کہ میں تو ایسے عمل کر رہا ہوں اور اِس کی وجہ ہو بخل کہ پیسے خرچ کرنا جانتا ہی نہیں اِس لیے ایسے کرر ہا ہے اور اِس حدیث کی آڑ لے تو یہ غلط ہو گا کیونکہ رسول اللہ ۖ تو اپنے پاس رکھا ہی نہیں کرتے تھے تو اُس کروڑ پتی کو دُوسری بات کرنی چاہیے پہلے کہ اپنے پاس رہے ہی نہ پھر یہ کرنا چاہیے کہ اِس طرح سے رہے جیسے اور رہتے ہیں تو یہ بات پہلے نہیں، حقیقتاً اِس طرح کی زندگی گزارنی بہت ہی مشکل کام ہے اور اگر کوئی اِس پر عمل کر لیتا ہے تو وہ بڑا خوش قسمت ہے کیونکہ اِتباعِ سنت جو ہے یہ تو آخرت کا جو خوش نصیب آدمی ہو اُسے نصیب ہوتا ہے ورنہ حاصل ہی نہیں ہوتا، اِتباعِ سنت جو اللہ کے نزیک بہترین آدمی ہوگا وہ کر سکے گا ورنہ کسی کے بس کا نہیں ہے، وہ جو سیٹھ ہے اور پھٹے ہوئے کپڑے پہن رہا ہے یا پیوند لگے ہوئے پہن رہا ہے اُس کا نام ریاکاری ہوسکتا ہے اِتباعِ سنت نہیں ہوسکتا کیونکہ اِتباعِ سنت تو یہ ہے کہ اپنے پاس رکھے بھی نہ ۔ حضرت اَبوذر کا مسلک خوب کمائو اور خرچو مگر جمع نہ کرو : اور صحابہ کرام میں تو ایک جلیل القدر صحابی جو ہیں حضرت اَبوذر رضی اللہ عنہ وہ تو اِسی کے قائل ہوگئے تھے وہ کہتے تھے کہ روپیہ اور پیسہ یعنی سونا اور چاندی یہ دو سکے جو ہیںیہ نہیں رکھ سکتا آدمی، جائیداد ہے ٹھیک ہے اُس سے آمدنی آئے گی جمع نہیں کر سکتا آمدنی جمع نہیں کر سکتا ،باغ ہے کسی کا ٹھیک ہے جائیدادہے ٹھیک ہے اُس سے کرایہ آتا ہے ٹھیک ہے لیکن جب آجائے تو خرچ کر ڈالنا چاہیے اُسے جمع کرنا یہ اُن کے نزدیک درست نہیں ہے وہ بالکل اِس کے قائل نہیں تھے اور رسول اللہ ۖ نے اُن سے ایک دفعہ اِسی طرح کی بات فرمائی تھی بس اُس کے بعد سے تاحیات اُسی پر قائم رہے ۔