ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
ایک اللہ والا اپنے خطوط کے آئینے میں ( جناب مولاناقاری تنویر اَحمد صاحب شریفی، کراچی ) اُستاذِ محترم شیخ الحدیث حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ (بانی جامعہ مدنیہ جدید و قدیم و خانقاہِ حامدیہ لاہور) کے مخلص ترین عقیدت مند حضرت حاجی مبین اَحمد صاحب ٢٤ رجب المرجب ١٤٣٦ھ/ ١٤مئی ٢٠١٥ء جمعرات کو ظہر سے پہلے لاہور میں وفات پاگئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ حضرت حاجی صاحب طویل عرصے سے علیل تھے دماغی فالج ہو گیا تھا لیکن محض اللہ کے فضل وکرم سے یاداشت حاضر تھی اَلبتہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ فرمادیتے کہ اِس وقت فلاں بات ذہن میں نہیں ،یاد آجائے تو بتا دُوں گا۔ حاجی صاحب میںاللہ نے بہت سی خوبیاں رکھی تھیں جس میں اہم ترین خوبی یہ تھی کہ وہ اہل اللہ کے تربیت یافتہ تھے اُن سے جب بھی ملاقات ہوئی اُن کے پاس نشست کا موقع مِلا یا اُن کے خطوط کو پڑھا اُن میں ہمیشہ اہل اللہ کا ذکر اہل اللہ کی یاد ہی پائی، ایسا شخص جس کی مجلس میں بیٹھ کر جس کے خطوط پڑھ کر ''اَنمول ہیرے'' میسر آجائیں اُس پر اللہ والوں نے کتنی توجہ کی ہوگی کہ وہ خود اللہ والا بن گیا ! ! حضرت حاجی صاحب ،حضرت مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے ہم عمر تھے اُن کی پیدائش گزشتہ( بیسویں) صدی کے تیسرے عشرے میں بائیس خواجوں کی چوکھٹ دہلی میں ١٩٢٤ء کو ہوئی، دہلی ہی میں تعلیم پائی اُس زمانے میں اسکول و کالج کی تعلیم معیاری ہوتی تھی اور کیوں نہ ہو ، اَساتذہ خوب محنت کراتے تھے اُس محنت کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم اپنے دور کے گریجویٹ کو سامنے بٹھالیں اور اُس دور کے صرف میٹرک پاس کو سامنے بٹھالیں پھر موازنہ کریں تو اُس محنت و مشقت کے دور کا میٹرک کیا ہوا آدمی اَخلاق میں علم میں عمل میں آج کے گریجویٹ کے سامنے صحیح معنی میں اِنسان نظر آتا ہے، حاجی صاحب نے بھی اُسی دور میں تعلیم حاصل کی، تنگی وعسرت کا دور تھا حلال روزی کے لیے دہلی سے