ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
فَمَنْ یَاْخُذُ مَالاً بِحَقِّہ یُبَارَکُ لَہ فِیْہِ وَمَنْ یَّاْخُذُ مَالاً بِغَیْرِ حَقِّہ فَمَثَلُہ مَثَلُ الَّذِیْ یَاْکُلُ وَلاَ یَشْبَعُ۔ ( مسلم شریف رقم الحدیث: ١٠٥٢ ، ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٩٥ ) ''سوجو شخص مال کو اِستحقاق کے ساتھ حاصل کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت کی جاتی ہے اِس کے برخلاف جو شخص ناحق طریقہ پر مال کمائے اُس کی مثال اُس شخص کے مانند ہے جو کھاتا رہے مگر اُس کا پیٹ نہ بھرے۔'' اَلغرض مال کی ایسی ہوس کہ حلال حرام کی تمیز ختم ہوجائے اور آدمی شریعت اور آخرت کی بازپرس سے بے پرواہوکر دُنیا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ایسی مالداری قابلِ صد مذمت اور شدید فتنہ ہے جس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارِد ہیں۔ کون سے مالدار قابلِ تعریف ہیں ؟ : اور شریعت کی نظر میں قابلِ تعریف وہی سرمایہ دار ہیں جو دُنیوی کاروبار میں لگنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی یاد اور اُس کے اَحکامات کی تعمیل سے غافل نہیں رہتے، اِرشاد خدا وندی ہے : ( رِجَال لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَة وَّلَا بَیْع عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِیْتَائِ الزَّکوٰةِ) (سُورة المؤمنون : ٣٧) ''وہ لوگ نہیں غافل ہوتے سودا کرنے میں اور نہ بیچنے میں اللہ کی یاد سے، اور نماز قائم رکھنے سے اور زکوة دینے سے۔'' اور پیغمبر علیہ السلام نے سچائی اور اَمانت داری کے ساتھ تجارت کرنے والوں کو اِن الفاظ میں بشارت سنائی : اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الْاَمِیْنُ مَعَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَائِ۔ (الترمذ عن ابی سعید رقم الحدیث : ١٢٠٩ ، الترغیب والترہیب : ٢٧٦٧) ''سچااور اَمانت دار تاجر قیامت میں اَنبیائ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔''