ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
کسبِ معاش میں شرعی حدود کی رعایت ( حضرت مولانامفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ،اِنڈیا ) نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِےْمِ اَمَّا بَعْدُ ! دُنیا دارُالاسباب ہے یہاں زندگی گزارنے کے لیے اَسبابِ معیشت اور سامانِ ضرورت حاصل کرنا لازم ہے اِسی وجہ سے قرآنِ پاک میں مال ودولت کو ''مدارِ زندگی'' قرار دیا گیا ہے ، اِرشادِ خداوندی ہے : ( وَلَا تُؤْتُوا السُّفَہَائَ اَمْوَالَکُمُ اللَّاتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا ) (سُورة النساء : ٥ ) ''اور مت دو بے عقلوں کو اپنے وہ مال جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے گذران کا سبب بنایا ہے۔'' ظاہر ہے کہ جو چیز ''مدارِ زندگی'' ہواُسے اِسلام جیسا دین ِفطرت کیسے نظر اَنداز کرسکتا ہے اِسی لیے اِسلام نے جہاں ایک طرف اِس ''مدارِ زندگی'' کو ''مقصودِ زندگی'' بنانے سے منع کیا ہے اور آخرت فراموشی کے ساتھ دُنیا میں اِشتغال کوناپسند کیا ہے، وہیں رہبانیت (یعنی دُنیوی اَسباب سے کنارہ کشی)کو بھی ممنوع قرار دیا ہے اور اِس معاملہ میں درمیانی راستہ اَپناتے ہوئے برائے ضرورت اور بقدرِ ضرورت دُنیوی اَسباب اِختیار کرنے کی ترغیب دی ہے چنانچہ نبی اکرم ۖسے یہ دُعا مانگنا ثابت ہے : اَللّٰہُمَّ اَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِْ ہُوَ عِصْمَةُ اَمْرِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ دُنْیَایَ التَّیْ فِیْہَا مَعَاشِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ اٰخِرَتِی الَّتِیْ فِیْہَا مَعَادِیْ۔ (مسلم شریف رقم الحدیث ٢٧٢٠ ) ''اے اللہ ! میرے دین کی درستگی فرما جو مرے لیے محفوظ پناہ ہے اور میری دُنیا کی اِصلاح فرما جس میں میری زندگی گذرنی ہے اور میری آخرت کی بھی اِصلاح فرما جہاں مجھے لوٹ کر جانا ہے۔''