ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
اور حضرت جابر ص فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ۖ نے اِرشاد فرمایا : اَیُّہَا النَّاسُ اِتَّقُوا اللّٰہَ وَاَجْمِلُوْا فِ الطَّلَبِ فَاِنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوْتَ حَتّٰی تَسْتَوْفِیَ رِزْقَہَا وَاِنْ اَبْطَاَ عَنْہَا فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَجْمِلُوْا فِی الطَّلَبِ، خُذُوْا مَاحَلَّ وَدَعُوْا مَا حَرُمَ ۔ (سُنن اِبن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٤٤) ''اے لوگو ! اللہ سے ڈرو اور رزق کی طلب میں عمدگی اِختیار کرو اِس لیے کہ آدمی اُس وقت تک وفات نہیں پاسکتا جب تک کہ اپنے حصہ کی روزی نہ پالے اگرچہ اِس میں کچھ تاخیرہی کیوں نہ ہو، اِس لیے اللہ سے ڈرتے رہو اور روزی کی تلاش میں حسن تدبیر اِختیار کرو اور جو صورت حلال ہو اُسے لے لو اور حرام کو چھوڑ دو۔'' معلوم ہوا کہ ہمیں دُنیا طلبی میں ہر موڑ پر شرعی حدود کی پابندی کرنی چاہیے اور ہر اُس ذریعہ سے اِجتناب کرنا چاہیے جس پر شریعت میں پابندی لگائی گئی ہے۔ سود کی ممانعت : اِسلامی شریعت میں مال کمانے کے بعض ذرائع کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور تجربہ اور مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہے کہ عالَم کا اَمن و اَمان اور معاشرہ کی صلاح و فلاح اِسی ممانعت پر عمل کرنے میں مضمر ہے اور جس معاشرہ میں شرعی ممانعت کی پرواہ نہیں رکھی جاتی وہ معاشرہ خود غرضی اورمفاد پرستی کا نمونہ بن جاتا ہے جیسا کہ آج پوری دُنیا کا حال ہے کہ آدمی مال و دولت کے حصول میں بالکل آزاد ہوچکا ہے اور ہر شخص اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کر گذرنے کے لیے تیار ہے اور دُوسرے کی خیر خواہی کا جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔ اِن حرام ذرائع میں سب سے بدترین ذریعہ ''سود'' ہے۔ قرآنِ کریم میں نہ صرف یہ کہ سودی لین دین سے منع کیا گیا ہے بلکہ سودی کاروبار میں لگے رہنے والوں سے اعلانِ جنگ کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے :