ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
٭ مشہور اَنگریز مفکر ''لارڈ لینز'' لکھتا ہے : ''دُنیا کی تمام تکلیفیں یہاں تک کہ بے روز گاری بھی صرف سود خوری کا نتیجہ ہے۔'' (اِسلام کے معاشی نظریے ٢/٤٢١) اِن حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سود کی حرمت کوئی نیا نظریہ نہیں ہے جسے اِسلام نے رائج کیا ہو بلکہ یہ چیز ہی ایسی غیر فطری اور عقل اِنسانی سے بعید ہے کہ کوئی بھی عاقل شخص اِس کے جواز کا قائل نہیں ہوسکتا، حتی کہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ عرب کے اَیامِ جاہلیت میں بھی جبکہ کوئی دین وشریعت اُن کے پاس نہ تھی وہ لوگ سود کی آمدنی کو اچھا نہ سمجھتے تھے، اِسی لیے بیت اللہ شریف کی تعمیر جدید کے لیے جو چندہ اکٹھا کیا گیا وہ اِس طرح کی آمدنیوں سے خالی تھا اور اِسی شرط کی وجہ سے چندہ میں کمی رہ گئی تھی اور حطیم کا حصہ بیت اللہ کی عمارت سے خارج کرنا پڑا تھا۔ سود کے چند مفاسد : سود کے نقصانات اور اُس کے ناجائز ہونے کے اَسباب اِس قدر زیادہ ہیں کہ اُن کا احاطہ کرنا ایک مستقل کتاب کا متقاضی ہے، یہاں چند ایسے مفاسد ذکر کیے جاتے ہیں جو عقل وتجربہ کی روشنی میں سود کی حرمت کے لیے کافی ہیں : (١) جو فائدہ بذریعہ سود ایک شخص کو ملتا ہے اُس سے قوم کے کسی دُوسرے فرد کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، برخلاف تجارت وغیرہ کے، کہ اُس کی آمدنی اِس بناء پر جائز ومفید ہوتی ہے کہ وہ ایک مصنوع یامستعمل چیز کی کے عوض حاصل کی جاتی ہے جس سے مشتری اور قوم کے دُوسرے اَفراد نفع اُٹھاتے ہیں جبکہ سود کی آمدنی خالی عن العوض ہوتی ہے۔ (٢) جو سود سرمایہ دار کو ملتا ہے وہ ضرورت مند قرض لینے والے کے سود سے دیا جاتا ہے جو سراسر ظلم اور نااِنصافی ہے (آج کل کے بنکوں کا طریقہ یہی ہے)۔ (٣) سود سے جو مال بڑھتا ہے اُس سے قوم کے سرمایہ میں کوئی اِضافہ نہیں ہوتا، کیونکہ اَصل