ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
ایساکیوں ؟ : کیا معاذ اللہ ! قومی تعصب تھا جس نے یہ ترمیم ضروری قرار دی یا کوئی اِصلاحی مقصد تھا جس کے لیے یہ ترمیم ضروری سمجھی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ دین ِ فطرت یعنی اِسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ''فطرت'' کا گلا نہیں گھونٹتا اَلبتہ اِس کی کج روی اور بے اِعتدالی دُور کردیتا ہے اِس کا یہ فعل یہاں بھی ہوا ہے یعنی فطری مطالبہ کو پورا کرتے ہوئے اِس میں وہ خوبی پیدا کردی گئی ہے کہ وہ صرف نفسانی اور مادّی چیز ہی نہیں رہی بلکہ سراسر عبادت اور ایک رُوحانی حقیقت بن گئی ہے۔ اِسلامی تعلیم کا حاصل یہ ہے کہ خوشی ضرور مناؤ فطرت کے اِس تقاضے کو کہ سال میں ایک دو روز ایسے ضرور ہوں جن میں اپنی تہذیب قومی اورمِلّی شان و شوکت کا مظاہرہ ہو ضرور پورا کیا جائے مگر اِن دِنوں کے مقرر کرنے اور منانے میں زمانۂ جاہلیت کا ذوق اور جاہلانہ جذبات کار فرما نہ ہوں بلکہ اِس کا محرک کوئی سچا اور پاک جذبہ ہونا چاہیے۔ آباء پرستی حرام ہے، مادّہ پرستی شرک ہے اور ایسا ترنگ اور ایسی عیش و عشرت جو جامہ ٔ اِنسانیت کو چاک اور جبین ِ تہذیب کو داغدار بنادے خود تہذیب پر ظلم ہے لہٰذا ''عکاظ'' اور ''ذی المجاز'' جیسے تہوار اور میلے جن میں خاندانی عظمت اور آباؤ اَجداد کے مفاخر میں فصاحت و بلاغت کی تمام طاقتیں صرف کردی جائیں یا نو روز اور مہرجان جیسے تہوار جن میں موسم ِ بہار کے نام پر زندگی کی بہار میں بحران پیدا کیا جائے اور خوردو نوش کی وسعت کو رقص و طرب کے دائرہ تک پہنچا کر عیش و عشرت کی داد دی جائے، یہ اِنسانیت و تہذیب و شرافت کی پیشانی پر بد نما داغ ہیں، اِن میں سے ایک ایک کو مٹ جانا چاہیے یعنی اِسلام کا بنایا ہوا تہوار نسلی برتری، خاندانی فخرو عظمت، آباؤ اَجداد کے مفاخر یا موسمِ بہار و خزاں کے مادّی اَثرات کی بناء پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ آباء پرستی کے بجائے خدا پرستی،خاندانی فخر وعظمت کے بجائے اِخلاص و للہیت اور عیش و عشرت کے بجائے اِیثار وقربانی کے جذبات اِس میں کارفرما ہونے چاہئیں اور وہ دِن ایسے ہوں کہ اُن سے اگر یاد ہو سکے تو اِنہی پاک جذبات کی اور اِنہی مقدس رُجحانات کی تاکہ اِنسانی فطرت کا تقاضا اِسی طرح پورا ہو کر عبدیت وبندگی، خدا پرستی اور اِنسانی شرافت و عظمت کے آثار بھی نمایاں رہیں اور اِسلام جس اِنسانیت کی