ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
چاہیے''۔ (اِصلاح المال ص ٧٦ـ٧٧) اِن آثار واَقوال سے معلوم ہوا کہ اگر نیت بخیر ہو تو اِصلاحِ معاش کی فکر کرنے اور اُس کے لیے حسنِ تدبیر اَپنانے میں حرج نہیں ہے تاکہ یہ مال نہ صرف یہ کہ زندگی میں کام آئے بلکہ بعد میں وارثین بھی اِس سے فائدہ اُٹھاسکیں۔ نبی اکرم ۖ کا مشہور اِرشاد ہے : اِنَّکَ اِنْ تَذَرَ وَرَثَتَکَ اَغْنِیَائَ خَیْر مِّنْ اَنْ تَذَرَہُمْ عَالَةً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ۔ (بخاری شریف رقم الحدیث : ١٢٩٥ ، مسلم شریف رقم الحدیث : ١٦٢٨ ) ''تم اپنے وارثین کو دُوسروں سے بے نیاز چھوڑ کر جاؤ یہ اِس بات سے بہتر ہے کہ اُنہیں بھیک مانگتا ہوا فقیر چھوڑو۔'' اَمیر المومنین سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ ''جو مال اللہ تعالیٰ نے تمہیں بطورِ رزق عطا فرمایا ہے اُس کو درست رکھا کرو (یعنی اُس کی حفاظت اور اُسے بڑھانے کا اِنتظام کرو) اِس لیے کہ جو مال کم ہو مگر سلیقہ کے ساتھ ہو وہ اُس زیادہ مال سے بہتر ہے جو پھوہڑپن کے ساتھ ہو۔'' (اِصلاح المال ص ٥٨) شرعی حدود کی رعایت نا گزیر : تاہم اِسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ کسی بھی معاملہ میں پیش قدمی کرنے سے پہلے اپنے خالق ومالک کی مرضی اور منشاء کو معلوم کرکے اُس کا لحاظ رکھنے کی کوشش کریں اور کسی بھی وقت دُنیوی مصروفیات میں اِس طرح منہمک نہ ہوں کہ اپنے خالق کی یاد کو بھلا بیٹھیں چنانچہ مال کو حاصل کرنے کے بارے میں بھی مسلمان کو کھلی آزادی نہیں دی گئی ہے بلکہ اِس بارے میں شریعت اِسلامی میں کچھ شرائط متعین کی گئی ہیں جن کا خیال رکھنا ہر شخص پر لازم ہے اور جو شخص اُن کا خیال کیے بغیر مال کو حاصل کرے گا اُس کے لیے یہ مال نعمت نہیں بلکہ بدترین وبالِ جان بن جائے گا چنانچہ نبی کریم ۖ نے اِرشاد فرمایا :