ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ حرام مال جیسے آتا ہے ویسے ہی بے فائدہ جگہوں پر خرچ ہوکر چلا بھی جاتا ہے اور بسا اَوقات اپنے ساتھ دُوسرے حلال مال کی برکت بھی ختم کردیتا ہے اِس لیے اللہ سے ڈرنے کا حق اُسی وقت اَدا ہوسکتا ہے جبکہ ہم اپنی معیشت اور کاروبار کو سود کی نجاستوں سے حتی الامکان پاک کرلیں اور حرام ذرائع سے بچ کر اپنا ٹھکانا جنت میں بنالیں۔ سود کی حرمت پچھلی شریعتوں میں : یہاں یہ بات خاص طور پر پیش نظر رہنی چاہیے کہ سودی لین دین کی حرمت صرف اِسلام ہی میں نہیں ہے بلکہ پچھلے مذاہب ِسماویہ وغیر سماویہ کا نظریہ بھی اِس کے بارے میں وہی تھا جو اِسلام پیش کرتا ہے چنانچہ ٭ یہودیت میں سود قطعاً حرام تھا۔ اَصحاح ٢٢ سفر مزامیر میں لکھا ہے : ''اِیمان والا شخص سود پر (مال) نہیں دیتا۔'' ٭ اور توریت میں ہے : ''جب تمہارا بھائی محتاج ہو تو اُس کو سود پر (مال) نہ دو۔'' اِس کے بعد یہودی اَحبار ورہبان نے اپنی مادّیت پرستی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے اِس حرمت ِمطلقہ کو اِس معنی پر محمول کرلیا کہ یہود کا آپس میں تو سودی لین دین ممنوع ہے اَلبتہ غیر یہودیوں سے سود لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ آج تک وہ اِس تحریف پر عمل پیرا ہیں۔ قرآنِ کریم نے اُن کی اِس تحریف وتلبیس کو اِن الفاظ میں واشگاف فرمایا ہے : ( وَاَکْلِہِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُہُوْا عَنْہُ وَاَکْلِہِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَاَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ مِنْہُمْ عَذَاباً اَلِیْمًا) (سُورة النساء : ١٦١) ''اور اُن کی سود خوری سے بھی حالانکہ اِس سے اُن کو ممانعت کردی گئی تھی اور اِس سے بھی کہ وہ ناحق لوگوں کے مال کھاتے تھے اور اِن میںسے ظالموں کے لیے ہم نے عذابِ الیم تیار کررکھا ہے۔'' ٭ اِسی طرح دین عیسائیت میں بھی سود ناجائز تھا، ''اِنجیل لوقا'' میں ہے :