ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
علیہ الصلٰوة والتسلیم کی زبانِ مبارک سے سَیِّدُ الشُّہَدَاء کا لفظ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے متعلق وہ شہید ہوئے تو فرمائے پھر اپنی وفات کے قریب وہاں تشریف لے گئے او ر اُن کے لیے دُعا کی اور اُس کے بعد ایسے کلمات اِرشاد فرمائے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اللہ کے نزدیک زندہ ہو۔ شہدائِ اُحد کی کرامات : آپ نے دیکھا واقعی اِسی طرح ہوا ہے اِن حضرات کے جسم ہمیشہ ترو تازہ اور نرم اور سالم رہے ، اللہ کی عجیب شان ہے،اِمامِ مالک رحمة اللہ علیہ جو مدینہ منورہ کے باشندے ہیں حدیث میں فقہ میں اِمام ہیں اُن کے ماننے والوں کو مالکی کہا جاتا ہے اُنہوں نے مؤطاء میں لکھا ہے بَلَغَنَا ہمیں یہ اِطلاع پہنچی ہے ہمیں یہ روایت پہنچی ہے اہلِ مدینہ سے سنتے چلے آئے ہیں سب بزرگوں سے کہ اِن حضرات کو اِن کے دفن ہونے سے چھتیس سال کے بعد نکالنے کا حکم دیا گیا کہ یہاں پانی لانا ہے نہر لانی ہے اِنجینئروں کی رائے ہے کہ یہی جگہ ہو سکتی ہے ورنہ اہلِ مدینہ کے لیے پانی کی سہولت پہنچانی ممکن نہیں ہے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ہر آدمی اپنے اپنے مورثِ اَعلیٰ کو جو اُس کے باپ ہوتے ہیں یا دادا ہوتے ہیں یا جو بڑے ہوتے ہیں رشتے میں یہاں سے اُٹھا لے اور اُونچی جگہ دفن کر لے ٹیلے پر، وادی میں سے ہٹا لے اُونچی جگہ دفن کر دلے چنانچہ ہر ایک پہنچا اپنے مورثِ اَعلیٰ کو ہٹایا وہاں سے اور اُوپر لے جا کر دفن کیا ،تمام راوی اِسی طرح کی حالت لکھتے ہیں کہ کَاَنَّہُمْ قَوْم نِیَام ١ اُن کے بدن بھی نرم تھے اور ایسے لگتا تھاجیسے سو رہے ہیں۔ تو جنابِ رسول اللہ ۖ نے جس کے متعلق جو فرمایا وہ ایسی چیز ہے کہ سب کو محسوس ہوئی اُس کے آثار سب کو دِکھائی دیے۔ دیگر شہداء کی کرامات : حضرت سیّدنا زبیر ،حضرتِ طلحہ رضی اللہ عنہما اِن دونوں کی لاشیں ایک جگہ سے دُوسری جگہ منتقل کی گئیں حضرت عبداللہ اِبن عباس رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اُنہوں نے ہی فتوی دیا تھا اور دریا کا پانی ١ المنتظم فی تاریخ الملوک والامم ، ذکر من توفی فی ہذہ السنة من الاکابر