ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں بھائی محمود اَحمد عارف کل رات دارِ فانی سے رُخصت ہوگئے معزز و مکرم قاری شریف اَحمد صاحب زید مجدکم و مد ظلکم السلام علیکم ورحمة اللہ علیہ وبرکاتہ آج صبح جامعہ مدنیہ سے مولوی شیر محمد نے یہ اِطلاع دی کہ بھائی محمود اَحمد صاحب کی وفات ہوگئی ہے، اِس خبر سے دِل کو صدمہ ہوا اور آنکھیں اَشکبار ہوگئیں، آج اُن کی للہیت اور اُن کی محبت یاد آرہی ہے، دو ہفتے گزرے ہیں مرحوم و مغفور میرے پاس ملنے کے لیے آئے تھے، اللہ کریم کا کرم ہے حضرت مولانا کے مخلص و محبوب دوستوں کی محبت کا شرف مجھے حاصل رہا ہے، یہ کیا ہے ؟ اللہ کا فضل ہے، میں اُن کی دُعاؤں سے مستفیض ہو رہا ہوں، بھائی محمود کی دِل نشین باتیں یاد رہیں گی۔ حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ کے وصال پر اُنہوں نے مجھ سے کہا تھا ! اُٹھا جب میر میخانہ ، تو میخانے پہ کیا گزری صراحی کا ہوا کیا حال ، پیمانے پہ کیا گزری نہ رنگِ اَنجمن سمجھا ، نہ اہلِ اَنجمن سمجھے ہوئی کافور جب شمع ، تو پروانے پہ کیا گزری (٢٨ جنوری ١٩٨٩ئ) حضرت حاجی صاحب کا ذوق مطالعہ ملاحظہ ہو، تحریر فرماتے ہیں : ''رمضان شریف میں ایک مضمون میری نظر سے گزرا ہے، مضمون مختصراً یہ تھا : حق تعالیٰ نے اپنے محبوب ترین بندوں کی یہ علامت بتائی ہے کہ وہ سحر کے وقت گِڑگِڑاتے ہیں اور اِستغفار کرتے ہیں۔ اَلحمد للہ ! آپ (حضرت قاری صاحب) اِس حال پر قائم ہیں مولانا حامد میاں نور اللہ مرقدہ فرمایا کرتے تھے کہ حال جب