ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
وبرکات برستی نظر آرہی ہیں، وہاں حضرت مولانا کو ننگے سر سفید کپڑوں میں پُرسکون حالت میں پھرتے ہوئے دیکھا اور میں نے خود کو اُن کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھا اور ہر طرف یہ دیکھاکہ سب حضرات اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں لیکن اللہ کی یاد سے کوئی بھی غافل نہیں ہے اور یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اللہ کی رحمت نے سب کو محیط کیا ہوا ہے، ایک صاحب کچھ پریشان نظر آرہے تھے آواز آئی فلاں جگہ روزے اِفطار کرائے جا رہے ہیں، وہاں چلے جائیں ۔ '' حضرت مولانا کا ایک خط ٢٤ شعبان المعظم ١٤٠٧ھ /٢٤ اپریل ١٩٨٧ء کا میری ٹیبل پر رکھا ہوا ہے اُس خط میں شعر لکھ کر حضرت نے دستخط کردیے ہیں عجب ''سرائے'' ہے فانی کہ جس میں شام و سحر کسی کا ''کوچ'' کسی کا ''مقام'' ہوتا ہے (٢٦ مئی ١٩٨٨ئ) حضرت قاری صاحب کی تعلیم ِقرآن کی خدمت کے متعلق اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں : ''الحمدللہ ! قرآنِ پاک کی تعلیم آپ کا شغل مبارک ہے اور تعلیم و تعلّم سے آپ کو شغف ہے، قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ تعلیم و تعلّم ہی اِس اُمت کا سب سے اُونچا مقام ہے، آپ کا مرتبہ اور آپ کا مقام حضرت مولانا سیّد حامد میاں صاحب قدس سرہ کو معلوم تھا، حضرت مولانا آپ کے مرتبے اور مقام کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔کاش ! ہمیں بھی وہ بصیرت نصیب ہوتی ! '' (دسمبر ١٩٨٨ء ) حضرت مولانا سیّد حامد میاںصاحب کے خلیفہ و مجاز حضرت حاجی محمود اَحمد صاحب عارف رحمة اللہ علیہ کی وفات پر حاجی مبین صاحب مرحوم نے یہ خط تحریر فرمایا جس میں حضرت جی کی وفات پر حضرت حاجی محمود اَحمد صاحب عارف کا شعر بھی نقل کیا، خط یہ ہے :