ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
قائم رہنے لگے تو وہ مقام بن جاتا ہے، اِس مقام کی برکت ہے ہم آپ سے دُعا کی درخواست کیا کرتے ہیں۔ '' (٢٠ اپریل ١٩٨٩ئ) راقم الحروف جب درسِ نظامی پڑھ رہا تھا تو ١٩٩١ء میں سالانہ اِمتحان کے موقع پر حضرت قاری صاحب نے حاجی صاحب کو خط لکھا ہوگا کہ تنویر کے اِمتحان ہو رہے ہیں اور دُعاؤں کا بھی یقینا لکھاہوگا اُس کے جواب میں حضرت حاجی صاحب نے تحریر فرمایا : ''بر خور دار فرماں بردار تنویر اَحمد سلمہ کا سالانہ اِمتحان ہو رہا ہے اللہ رب العزت اُن کو شاندار کامیابی نصیب فرمائے، خوشی کا مقام ہے آپ کی کوششیں بار آور ہو رہی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے ایک بزرگ یہ فرما رہے تھے کہ علم اور معلم کی قدر دانی اِسلامی روایات میں چلی آرہی ہے، اِس کے بعد اُنہوں نے کہا کہ اِمام اَعظم رحمة اللہ علیہ کے بیٹے نے جب اَلحمد شریف (سورۂ فاتحہ) ختم کی تو حضرت نے سکہ رائج الوقت ایک ہزار اُستاد ِ محترم کو پیش کیے اور یہ کہا کہ اِس سے زیادہ اِس وقت میرے پاس ہوتے تو آپ کو بِلا تأمل دیتا۔ یہ سن کر اُستادِ معظم نے کہا کہ حضرت ! میں نے کوئی بڑا کارنامہ تو اَنجام نہیں دیا، اِتنی بڑی رقم مجھے دے رہے ہیں ؟ اِمام اَعظم نے فرمایا کہ جو دولت میں نے دی ہے وہ تو ختم ہوجانے والی ہے اور جو دولت آپ نے دی ہے وہ تو بڑھتی ہی رہے گی۔'' (٢١ فروری ١٩٩١ئ) حاجی صاحب اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں : ''قاری صاحب ! رمضان المبارک میں آپ کو خط لکھنے کی تمنا تھی اور اُس خط میں ایک شعر بھی لکھنا تھا جو کہ سرتاجِ اَولیاء حضرت مولانا سیّد حسین اَحمد مدنی رحمة اللہ علیہ کا پسندیدہ تھا اور یہ شعر ہمارے محسن حضرت مولانا سیّد حامد میاں رحمة اللہ علیہ کو بھی پسند تھا