ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
یہ دِل نشین الفاظ آج بھی میرے دِل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں ،حضرت مولانا یاد آرہے ہیں حق تعالیٰ اُن کو اپنے لقائے رضوان اور رفیع درجات سے نوازے۔'' (٢٣ مارچ ١٩٨٨ئ) حضرت حاجی صاحب کو حضرت مولانا سیّد حامد میاں صاحب سے بہت تعلق تھا، اِس تعلق کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے : ''سخن دان بزرگ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی مدظلہ نے ایک خط میں مجھے یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ حضرت ڈاکٹر عبد الحئی صاحب نور اللہ مرقدہ نے اِظہارِ محبت میں حضرت علامہ سیّد سلیمان ندوی قدس سرہ کو یہ لکھا تھا کہ آپ نے پاکستان میں ہمارے پاس ایک ماہ قیام کیا اور واپس چلے گئے، آپ کے جانے کے بعد آپ کی صحبت کے لطف سے محروم ہوگیا ہوں اور خلاء سا محسوس کرتا ہوں۔ جواب میں حضرت سیّد صاحب رحمة اللہ علیہ نے یہ لکھا : ع حسن رُوئے لیلیٰ میں نہیں دیدۂ مجنون میں ہے جنابِ من ! یہ تو میرے خط کی تمہید تھی، حضرت مولانا کے وصال کے بعد جن بزرگوں کے اَحباب نے اور بچوں نے حضرت مولانا کو خواب میں دیکھا اُن کے خواب سن کر رشک آتا تھا، میرے دِل میں بڑی حسرت تھی کہ وہ مجھے خواب میں بھی نظر نہیں آئے ؟ میرے دِل میں یہ خیال بھی کئی بار گزرا کہ تیرا حال ایسا اَبتر ہے ؟ لیکن اِس خیال سے تسکین ہوتی تھی کہ وہ تجھے چاہتے تو تھے۔ اَلغرض ! حسرتِ دید میں دِن گزر رہے تھے کہ ایک دِن بڑا اچھا خواب دیکھا تفصیل مندرجہ ذیل ہے : ''حج کے موقع پر جیسے منٰی کے میدان میں اِجتماع ہوتا ہے، کچھ ایسا جیسے رائیونڈ میں سالانہ اِجتماع ہوتا ہے ایسا منظر دیکھا کہ خاص و عام کا ہجوم ہے دُور دُور تک اَنوار