ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں : ''ہمارے اعمال کا گوشوارہ گناہوں سے بھرا ہوا ہے، ہر وقت ڈر لگتا ہے ایک حدیث پاک پڑھی ہے اُس میں لکھا ہوا ہے کہ جن لوگوں کو یہ خیال ہے کہ ہماری بداَعمالیوں کی وجہ سے حق تعالیٰ ہماری دُعائیں قبول نہیں فرمائیں گے اُن کو چاہیے کہ دُوسرے حضرات سے دُعا کی درخواست کریں،جب سے یہ مضمون پڑھا ہے اِخلاص کے ساتھ حضراتِ مقربین اور کاملین سے دُعائے خیر کی درخواست کرنے کا زیادہ شوق ہو گیا ہے۔'' (٢ فروری ١٩٨٧ئ) تنظیم القراء والحفاظ ٹرسٹ کے سالانہ جلسے کادعوت نامہ حضرت قاری صاحب نے حاجی صاحب کو بھی روانہ کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا : ''دعوت نامے کا بہت بہت شکریہ ! للہیت کی برکت ہے کہ آپ کی محبت میں کمی محسوس نہیں ہوتی، چاہے خط کے ذریعے اُس کا اِظہار ہو یا نہ ہو، بہرحال محبت ایسی چیز ہے کہ محبین کے دل آپ جیسے محسن کی یادمیں اور محبت میں ٹرپتے ہیں،ایک صاحب نے دِل کی تعریف میں ایک شعر لکھ کر اِسی حقیقت کا اِظہار کیا ہے : اہلِ دِل کہتے ہیں وہ دِل ہی نہیں جو تڑپتا نہ ہو کسی کے لیے ! (٢٢ دسمبر ١٩٨٧ئ) شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے وصال کے بعد اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں : ''محترم ! ایک مضمون میری نظر سے گزرا تھا، کسی اللہ کے بندے نے اپنے شیخ کی تعریف میں یہ الفاظ لکھے تھے کہ '' علم و حکمت کا یہ نیر تاباں لحد میں ہمیشہ کے لیے رُوپوش ہو کر چاہنے والوں کے دِلوں میں فروزاں ہوگیا۔''