ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
جداَمجد کے ساتھ لاہور گیا جتنے دِن لاہور میں ہوتے حضرت قاری صاحب روزانہ گیارہ بجے اُن کے پاس لے جاتے اور ظہر تک یہ نشست رہتی۔ ''مرکز اہلِ ذوق و تقوی'' میں جید اہلِ علم و مشائخ تشریف لاتے تھے اور حاجی صاحب اپنے ذوق کے مطابق اِکرام بھی فرماتے تھے، پروفیسر یوسف سلیم صاحب چشتی حضرت اَلحاج محمود اَحمد صاحب عارف (خلیفہ مجاز حضرت جی) آپ کے اِس مرکز کی رونق تھے۔ ذیل میں حاجی صاحب کے وہ خطوط جومیرے جد اَمجد حضرت قاری صاحب کے نام ہیں اُن میں سے بعض موتی نقل کرتا ہوں۔ حضرت حاجی صاحب تحریر فرماتے ہیں : ''حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی مدظلہ نے ایک مضمون میں یہ لکھا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ حسنِ ظن اور خوش گمانی کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی سے قوی تعلق اور سچی محبت ہے۔ محبت کا تعلق جتنا قوی ہوگا اُسی درجے کا حسنِ ظن نصیب ہوگا اور چونکہ محبت کے درجات غیر متناہی ہیں اِس لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ظن کے درجات بھی بے شمار ہیں۔ '' (٤ اگست ١٩٨٥ئ) درج بالا تحریر حضرت قاری صاحب کے اُس خط کے جواب میں ہے جس میں اُنہوں نے اپنے حج پر روانگی کی اِطلاع حاجی صاحب کو دی تھی اِس لیے حاجی صاحب نے ایک شعر میں کچھ ترمیم کرکے حضرت قاری صاحب سے یہ اِلتجا کی ہے تڑپ رہا ہے یہ مشتاقِ دید کہہ دینا درِ نبی پر سلامِ مبین کہہ دینا حضرت حاجی صاحب کا یہ ذوق بھی تھا کہ اَشعار یاد کر لیتے تھے اور موقع ومناسبت کے لحاظ سے تحریر میں لاتے تھے اور ملاقاتوں میں بھی سنادیا کرتے تھے ۔ حضرت قاری صاحب کی تالیف ِ لطیف ''تذکرة الانبیائ'' جب شائع ہوئی تو لاہور کے ایک سفر میں رقم الحروف کی ذمہ داری لگی کہ اِس کا نسخہ حضرت مؤلف کی طرف سے حاجی صاحب کو پیش کروں لیکن حاجی صاحب اُن دِنوں کراچی میں تھے اِس لیے ملاقات نہ ہوسکی وہ نسخہ میں حضرت مولانا