ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
نکلنا پڑا شملہ پہنچ گئے حضرت مولانا رشید میاں صاحب مدظلہم (مہتمم جامعہ مدنیہ قدیم ) روایت کرتے ہیں کہ حاجی صاحب بلا جھجک فرمایا کرتے تھے کہ میں نے شملہ میںتیس روپے میں ملازمت کی ہے، جس زمانے میں آپ شملہ میں ملازم تھے یہ ١٩٤٠ء کے بعد کا عرصہ ہے آپ اپنے ایک مکتوب میں جو میرے جد اَمجد حضرت مولانا قاری شریف اَحمد صاحب نوراللہ مرقدہ کے نام ہے تحریر فرماتے ہیں : ''شاعرِ پاکستان حنیف جالندھری رحمة اللہ علیہ کا شاہنامہ اِسلام ١٩٤٥ء میں شملہ میں پڑھا کرتا تھا اُن کے اَشعار دِل پذیر ہوتے تھے۔'' (٤ مئی ٢٠٠٣ئ) اِس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کو کتابیں پڑھنے کا شوق جوانی ہی میں اللہ کی طرف سے عطا ہوا تھا اور جوانی میں مطالعہ کا شوق تب ہی ہوگا جب بچپن میں ایسا ماحول مِلا ہو اور یہ ماحول کیوں نہ ملتا آپ کے والد ِگرامی ایک دیندار شخص تھے پھر دہلی بھی اہلِ علم کا مرکز تھابڑے بڑے نامور وہاں گزرے ہیں۔ ''اللہ کی طرف سے عطا'' میں نے اِس لیے لکھا کہ مطالعے کے ذوق کو علم و فضل سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ اَلگ ہی ایک فضیلت ہے۔ دہلی والا اگر دیندار اور تابعدار ہوگا تو بہت اعلیٰ درجے کا ہوگا، اور اگر دہلی والا بد معاش ہوگا تو وہ بھی اپنے فن میں کمال رکھتا ہے، اللہ رب العزت کی طرف سے حاجی صاحب مرحوم پر خصوصی اِنعام یہ ہوا کہ آپ کاشمار دینداروں بلکہ دیندار بنانے والوں میں ہوا۔ سلوک و تصوف میں آپ کا تعلق مولانا ماسٹر طفیل اَحمد صاحب علیگ سے تھا جنہوں نے ''دارُالتصنیف'' اور مدرسہ تعلیم الاسلام (تبلیغ کالج) کراچی میں قائم کیا تھا جو اَب بھی ہے۔ حضرت مولانا سیّد حامد میاں صاحب سے بھی آپ کا تعلق مریدوں جیسا تھا، آپ حضرت جی کی مجلسِ ذکر اور درسِ حدیث کے حاضر باش تھے اگرچہ آپ حضرت جی کے ہم عمر تھے لیکن تعلق عقیدت کا تھا حضرت جی بھی آپ سے بہت محبت فرماتے تھے حاجی صاحب کی عقیدت اَگلی سطور میں آپ محسوس فرمائیں گے۔ حضرت حاجی صاحب اپنے آپ کو ''خادم جامعہ مدنیہ '' لکھتے تھے اور حقیقت بھی یہی تھی، وقت کے جیدعلماء و مشائخ اور بزرگوں سے تعلق رکھتے تھے، اَیبک روڈ لاہور میں (قطب الدین ایبک کے مزار کے سامنے) اُن کی دُکان سلیم اینڈ کمپنی مرکز اہلِ ذوق و تقوی تھی ،میں جب بھی اپنے