ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
''جب تم ایسے لوگوں کو قرض دے رہے ہو جن سے تم پوری پوری مکافات اور اَدائیگی کی اُمید رکھتے ہو تو پھر مزید زیادتی تمہارے لیے کیسے مناسب ہے ؟ اَلبتہ تمہیں نیک کام کرنے چاہئیں اور یہ سوچ کر قرض دینا چاہیے کہ اِس کا نفع تمہیں واپس نہ ملے گا تو اُس وقت تمہیں بہت ثواب ملے گا۔'' ١ اِس کے بعد بتدریج عیسائی معاشرہ میں سود کی اِجازت دی جانے لگی، تاآنکہ بالکلیہ چھوٹ دے دی گئی اور بالآخر کلیسائی نظام نے بھی اِس تحریف پر اپنی مہر ثبت کرکے اِس جرم کو پھلنے اور پھولنے کاموقع فراہم کردیا۔ ٭ نیز ہندو مذہب میں بھی سودی لین دین ایک ناقابلِ معافی جرم ہے، ''اَچاریہ منوجی ادھیائے'' اپنی سمرتی میں لکھتے ہیں : ''بیاج لینے والا جو برہمن ہے اُس کو شودر کی طرح جاننا چاہیے۔'' ٢ علاوہ اَزیں پچھلے دانشوروں اور رہنمایانِ قوم سے بھی سود کے بارے میں سخت تنقیدیں مروی ہیں ٭ ''اَفلاطون'' کہتا ہے : ''کسی آدمی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کو سودی قرض دے۔'' ٣ ٭ ''اَرسطو'' اپنے خیالات کا اِظہار اِن الفاظ میں کرتا ہے : ''سود غیر فطری کمائی ہے کیونکہ نقد سے نقد نہیں پیدا ہوتا۔'' ٤ ٭ مشہور اِشتراکی رہنما ''کارل مارکس'' کہتا ہے : ''سود خوار ایک بڑا بھاری دیو اور شیطان ہے وہ ایک بھیڑیا صفت اِنسان ہے جو ہربستی کو برباد کرکے رکھ دیتا ہے، جب ہم چوروں، ڈاکوؤں اور نقب زنوں کی گردن مارتے ہیں تو پھر ایسے ہی تمام سود خوار بھی قابلِ گردن زدنی ہیں۔'' ٥ ١ اِنجیل لوقا آیت: ٦ ٢ منوجی سمرتی منتر ١٠٢ ٣ الاقتصاد الاسلامی ١/٢٨٣ ٤ نداء الاسلام محمود صواف ص ١٠٢ ٥ دی کیپیٹل کارل مارکس ٢/٦٥٢، نقل اَز اِسلام کے معاشی نظریے محمد یوسف الدین ٢/٤١٤