ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2015 |
اكستان |
|
(٤) آنحضرت ۖ اِرشاد فرماتے ہیں : فَاَتَیْتُ عَلَی قَوْمٍ بُطُونُہُمْ کَالْبُیُوْتِ فِیہَا الْحَیَّاتُ تُرٰی مِنْ خَارِجِ بُطُونِہم فَقُلْتُ مَنْ ہٰؤُلَائِ یَا جِبْرِیْلُ ؟ قَالَ ہٰؤُلَائِ اَکلَةُ الرِّبٰوا. ١ ''(معراج کی رات میں) میرا گزر ایسی جماعت پر ہوا جن کے پیٹ کمروں کے مانند تھے جن میں سانپ (لوٹ رہے) تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے، میں نے پوچھا کہ اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ تو حضرت جبرئیل ں نے جواب دیا کہ یہ سود کھانے والے لوگ ہیں۔'' (٥) حضرت عبد اللہ اِبن عباس ص کی روایت ہے کہ آنحضرت ۖنے اِرشاد فرمایا : اِذَا ظَہَرَ الزِّنَا وَالرِّبَا فِیْ قَرْیَةٍ فَقَدْ اَحَلُّوا بِاَنْفُسِہِم عَذَابَ اللّٰہِ.(رواہ ابویعلی رقم الحدیث ٤٩٨١ ، الترغیب والترہیب رقم الحدیث ٢٨٨٣) ''جب کسی بستی میں بدکاری اور سود خوری عام ہوجائے تو وہاں کے باشندے اپنے کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنالیتے ہیں۔'' اِسی طرح کی اور روایات بھی ذخیرۂ اَحادیث میں موجود ہیں جن کو پڑھ کر کسی بھی صاحب اِیمان کو ہرگز ہرگز یہ جرأت نہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنی آمدنی میں سود کا ایک لقمہ بھی شامل کرے، لیکن بُرا ہو مال کی ہوس اور دولت کی حرص کا کہ آج ہم اِسلام کا دعویٰ کرنے کے باوجود سودی کاروبار سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتے اور مال کی کثرت کے شدید شوق میں حلال و حرام کی تمیز ختم کردیتے ہیں حالانکہ جنابِ رسول اللہ ۖ نے فرمایا ہے : اَلرِّبَا وَاِنْ کَثُرَ فَِنَّ عَاقِبَتَہ اِلٰی قُلٍّ. (رواہ الحاکم عن عبد اللہ بن مسعود ٢/٣٧، الترغیب و الترہیب ص: ٤٢٠) ''سود کا مال اگر چہ بہت ہوجائے مگر اُس کا اَنجام کمی ہی کمی ہے۔'' ١ رواہ احمد٢/ ٣٥٣ ، الترغیب و الترہیب : ٢٨٨٥